Hajj Aur Umrah Ke Safar Mein Qasr Namaz Parhna

حج وعمرہ کے سفر میں قصر نماز پڑھنا

مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2501

تاریخ اجراء: 08شعبان المعظم1445 ھ/19فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہم حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں،تو مسجد حرام مکہ ومسجد نبوی  مدینہ میں قصر نمازیں پڑھیں گے یا پوری ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسافر شخص جب کسی  ایک مقام میں مسلسل 15 دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت کرلے،تو وہ مقیم ہوجاتا ہے، اور اسے پوری نمازیں پڑھنے کا حکم ہوتا ہے اور اگر 15 دنوں سے کم کی نیت کرتا ہے،یاکنفرم ہے کہ 15دنوں سے پہلےہی اسے وہاں سے کوچ کرناہے ،اب اگرچہ وہ 15دن کی نیت کرے تب بھی وہ مقیم نہیں ہوتا،مسافر رہتا ہے، اور اسے قصر کرنے کا حکم ہوتا ہے۔

   اس تناظر میں  اگر حج و عمرہ کے لئے جانے والے شخص کی نیت مکہ میں مسلسل پندرہ دن قیام کرنے کی  ہے،اس کے بعد وہ مدینہ یا پھر حج کے مناسک کی ادائیگی کے لئے مکہ سے نکل کر منی و مزدلفہ جائے گا ،تواس صورت میں وہ مقیم شمار ہوگا اور پوری نمازیں پڑھنے کا حکم ہوگا،اور اگر ان پندرہ دنوں کے اندر ہی مدینہ،منی یا مزدلفہ کی طرف جانا ہوگا،تو اب وہ مقیم نہیں ،لہٰذا نمازوں میں قصر کرے گا،اسی طرح مدینہ شریف میں 15دن سے کم قیام ہے توقصرنمازیں پڑھے گا۔

   فتاوی ہندیہ میں  ہے :”ونية الإقامة إنما تؤثر بخمس شرائط(ومنھا ) اتحاد الموضع والمدة “اقامت کی نیت کے درست ہونے کے لئے پانچ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے(اور ان میں سے ایک  یہ بھی ہے)کہ کسی ایک جگہ ٹھہرنے کی نیت کرے،نیز پورے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے ۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الصلاۃ،  ج 01ص139، دار الفکر،بیروت)

   جد الممتار میں ہے :”والحق ان التوالی شرط“ترجمہ:درست یہ ہے کہ ان پندرہ ایام کا مسلسل قیام شرط ہے۔ (جد الممتار ،جلد03،صفحہ 566،مکتبۃ المدینۃ ،کراچی)

   بدائع الصنائع میں ہے :”ذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر لكن بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح“ کتاب المناسک میں ذکر کیا کہ حاجی جب ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں  مکہ میں داخل ہو اور پندرہ دن اقامت کی نیت کرے یا  پھرذوالحجہ کے پہلے عشرے سے پہلے داخل ہو اور یوم الترویہ سے پہلے تک پندرہ سے کم دن بچیں اور وہ اقامت کی نیت کرے،تویہ نیتِ اقامت درست نہیں کیونکہ اسے مناسکِ حج کے  لئے عرفات کی طرف نکلنا ہوگا لہٰذا  پورے پندرہ دن اقامت کی نیت نہیں ہو سکے گی یوں اقامت درست نہیں ہوگی ۔(بدائع الصنائع، ج01،ص98،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے :” دو جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی اور دونوں مستقل ہوں جیسے مکّہ و منیٰ تو مقیم نہ ہوا اور ایک دوسرے کی تابع ہو جیسے شہر اور اس کی فنا تو مقیم ہوگیا۔ “(بہار شریعت ج01،حصہ 4، ص 745 ،مکتبۃ المدینۃ،کراچی)

   بہار شریعت میں ہی  ہے :”جس نے اقامت کی نیت کی مگر اس کی حالت بتاتی ہے کہ پندرہ دن نہ ٹھہرے گا تو نیت صحیح نہیں، مثلاً حج کرنے گیا اور شروع ذی الحجہ میں پندرہ دن مکۂ معظمہ میں ٹھہرنے کا ارادہ کیا تو یہ نیت بیکار ہے کہ جب حج کا ارادہ ہے تو عرفات و منیٰ کو ضرور جائے گا پھر اتنے دنوں مکۂ معظمہ میں کیونکر ٹھہر سکتا ہے اور منیٰ سے واپس ہو کر نیت کرے تو صحیح ہے“(بہار شریعت ج01 ،حصہ 4،ص 747، مکتبۃ المدینۃ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم