Halat e Ihram Mein Sar Ya Darhi Ke Balon Mein Kanga Karna Kaisa ?

حالتِ احرام میں سر یا داڑھی کے بالوں میں کنگھی کرنا کیسا ؟

مجیب:  ابو سعید محمد نوید رضا عطاری مدنی

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر: 5356- har

تاریخ اجراء: 13 جمادی الاولیٰ1444 ھ/08 دسمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حالتِ احرام میں سر یا داڑھی کے بالوں کو کنگھی کرنے کا کیا حکم ہے ؟ رہنمائی فرمائیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حالتِ احرام میں سر یا داڑھی کے بالوں کو کنگھی کرنا، مکروہ  تنزیہی ہے کہ ایک تو اس میں زینت کا پہلو  ہے ، دوسرا یہ کہ اس میں بال گرنے کا خدشہ ہوتا ہے  ،جو جنایت کا سبب ہے ، لہذا حالتِ احرام میں کنگھی کرنے سے بچنا چاہیے، نیز اگر کنگھی کرنے سے بال ٹوٹ گئے،تو اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ  اگر ایک سے تین تک بال ٹوٹے، تو ہر بال کے بدلے میں ایک مٹھی اناج یا ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چُھوہارا خیرات کرے اور اگرتین سے زیادہ بال  ٹوٹے ہیں، تو صدقہ دے  ، بہتر یہ ہے کہ ایک بال ٹوٹنے  پر بھی پورا صدقہ دے۔

   احرام کی حالت میں کنگھی کرنے کے متعلق مناسک ملا علی قاری میں مکروہاتِ احرام کے باب میں ہے :’’(ومشط راسہ )لاحتمال قطع شعرہ بہ ، ولما فیہ من التزین وازالۃ الشعث فکان الاولیٰ ان یقول : ومشط شعرہ لیشمل لحیتہ ایضا‘‘سر میں کنگھی کرنا ، کیونکہ اس میں بال ٹوٹنے کا احتمال ہےاور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں  زینت ہے اور بالوں کے پراگندہ ہونے کو زائل کرنا ہے ، تو اولیٰ یہ ہے کہ مصنف علیہ الرحمۃ یوں کہتے کہ بالوں میں کنگھی کرنا،تاکہ اس میں داڑھی بھی شامل ہوجائے ۔(مناسک ملا علی قاری ،ص120،مطبوعہ  ادارۃ القرآن)

   یونہی امام اہلسنت  سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ احرام کے مکروہات بیان کرتے ہوئے لکھتے  ہیں :’’ کنگھی کرنا۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج10،ص733، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی  احرام کے مکروہات بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں :’’کنگھی کرنا ۔‘‘(بھار شریعت، ج1،حصہ 6،ص1079، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   یہاں مکروہ سے مراد  مکروہ تنزیہی ہے ،جیساکہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی علیہ رحمۃ اللہ القوی احرام کے مکروہات تنزیہیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ شانہ دادن موی سر و ریش خود را بعد از تحقق احرام زیر آنکہ آن از قسم زینت است ، نیز در ویست احتمال قطع شدن موئھا‘‘احرام کے بعد سر یا داڑھی میں کنگھی کرنا (مکروہ تنزیہی ہے ) ، کیونکہ یہ  زینت کی قسم سے ہے اور اس میں بالوں کے ٹوٹنے کا احتمال ہے ۔(حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب ،باب اول در بیان احرام  ، ص25،مخطوطہ)

   یونہی اسی فصل میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :’’تزیین محرم بدن خودرا زیرانکہ وارد شدہ است در حدیث کہ"الحاج الشعث التفل "یعنی حاج کامل کسی است کہ موئی ژ ولیدہ و چرک آلودہ باشد‘‘ محرم کا اپنے بدن کی زینت کرنا (مکروہ تنزیہی ہے )، کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ’’ الحاج الشعث التفل‘‘ یعنی کامل حاجی وہ ہے، جو پراگندہ بال اور  غبار آلودہ ہو۔(حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب ،باب اول در بیان احرام ، ص25،مخطوطہ)

   اگر احرام کی حالت میں بال ٹوٹ جائیں ،تو اس کے کفارے کے متعلق  مناسک ملا علی قاری میں ہے :’’ولو سقط من راسہ  او لحیتہ ثلاث شعرات عند الوضوء او غیرہ ای حین مسہ وحکہ ۔۔ فعلیہ کف من طعام ۔۔۔او کسرۃ ای من خبز او تمرۃ لکل شعرۃ،ملتقطا‘‘اگر سر،یا داڑھی  کے وضو کرنے  یا اس کے علاوہ یعنی  چھونے یا  کھجانےسے تین بال گریں ، تو اس پر ایک مٹھی اناج یا ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چھوہارا صدقہ کرنا لازم ہوگا ۔

(مناسک ملا علی قاری ،ص327،مطبوعہ   ادارۃ القرآن )

   تنویرالابصار اور درِ مختار میں ہے:’’(الواجب دم علی محرمٍ اِن حلق)ای:ازال(ربع راسہ)او ربع لحیتہ(و ان حلق اقل من ربع راسہ)او لحیتہ(تصدق)، ملخصا‘‘محرم پر دم واجب ہے اگر اس نے اپنے چوتھائی سر یا اپنی چوتھائی داڑھی کے بال منڈائے یعنی دور کیے اور اگر اپنے سر یا داڑھی کے چوتھائی سے کم بال منڈائے ،تو صدقہ دے۔(درالمختارمع ردالمحتار ،ج3،ص651۔671،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی قاضی خان میں ہے:’’ان نتف من راسہ او من انفہ او لحیتہ شعرات فبکل شعرۃ  کف من طعام‘‘ اگراپنے سر یا ناک یا داڑھی سے چند بال نوچے ،تو ہر بال کے بدلے میں ایک مٹھی اناج ہے۔(فتاویٰ قاضی خان، ج1، ص 256، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’وضو کرنے یا کھجانے یا کنگھی کرنے میں جو بال گرے ،اس پر بھی پورا صدقہ ہے،اور بعض نے کہا دو تین بال تک ہر بال کے لیے ایک مٹھی اناج یا ایک روٹی کا ٹکڑا یا ایک چُھوہارا۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،ج10،ص760،رضا فاؤنڈیشن،کراچی)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرتِ علاّمہ مولانا  مفتی  محمدامجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ  القویّ فرماتے ہیں:’’وضو کرنے یا کھجانے یا کنگھا کرنے میں  بال گرے ،اس پر بھی پورا صدقہ ہے،اور بعض نے کہا دو تین بال تک ہر بال کے لیے ایک مٹھی اناج یا ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چُھوہارا۔‘‘(بھارِ شریعت،ج1،ص1171، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   صدقے سے مراد صدقۂ فطر ہے اور اس کی مقدار دو کلو میں 80 گرام کم یعنی تقریبا 1920 گرام گندم،یا چار کلو میں 160 گرام کم کھجور یا جَو ہے۔صدقے میں ان چیزوں کی قیمت بھی دی جا سکتی ہے اور گندم یا جَو کا آٹا یا ستو بھی دے سکتے ہیں۔

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:’’ھی نصف صاعٍ من بر او صاعٍ من شعیر او تمر و دقیق الحنطۃ و الشعیر و سویقھما مثلھما‘‘یہ گندم سے آدھا صاع یا جو یا کھجور سے ایک صاع ہے اور گندم اور جو کا آٹا اور ان کی مثل دونوں کا ستو۔       (فتاویٰ عالمگیری،ج1،ص191،مطبوعہ کوئٹہ)

   لباب المناسک میں صدقے کی مقدار بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’و یجوز اداء القیمۃ فی الکل‘‘اور قیمت ادا کرنا سب میں جائز ہے۔(المسلک المتقسط علی لباب المناسک،ص399،مطبوعہ ادارۃ القرآن)

   تنبیہ:صدقے کی ادائیگی کے متعلق حکم یہ ہے کہ اس کو حرم میں ادا کرنا ہی ضروری نہیں،بلکہ حرم کے علاوہ کہیں اور ادا کیا، تو بھی صدقہ ادا ہو جائے گا۔ہاں ! افضل و بہتر یہی ہے کہ مکہ مکرمہ  کے مساکین کو دے  کہ اس مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ  کا اختلاف ہے،ان  کے نزدیک صدقہ حرم میں ہی دینا ضروری ہے غیر حرم میں نہیں دے سکتے  ، اور اس بات پر اجماع ہے کہ  جب تک اپنے مذہب کا مکروہ لازم نہ آئے، فقہاء  کے اختلاف کی رعایت کرنا مستحب ہے ، لہذا امام شافعی علیہ الرحمۃ کے قول کی  رعایت کرتے ہوئے صدقہ حرم کے مساکین کو دینا افضل  و مستحب قرار پائے گا۔

   چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’و الافضل ان یتصدق علی فقراء مکۃ و لو تصدق علی غیر فقراء مکۃ جاز‘‘اور افضل یہ ہے کہ مکہ شریف زادھا اللہ تعالیٰ شرفاً و تعظیماً کے فقراء پر صدقہ کرے،اور اگر مکۃ المکرمہ زادھااللہ تعالیٰ شرفاً و تعظیماً کے فقراء کے علاوہ دوسرے فقیروں پر صدقہ کیا، تو بھی جائز ہے۔(فتاوی عالمگیری،ج1، ص244، مطبوعہ کوئٹہ)

   بنایہ شرح ہدایہ میں ہے :( ویجوز ان یتصدق بھا علیٰ مساکین الحرم وغیرھم)  ای وغیر مساکین الحرم (خلافا للشافعی رحمۃ اللہ علیہ )؛ فان عندہ یجب صرفھا علیٰ مساکین الحرم ‘‘ اور جنایت کا صدقہ حرم اور غیر حرم کے مساکین کو دینا جائز ہے ، برخلاف امام شافعی رحمہ اللہ کے ، کیونکہ ان کے نزدیک وہ حرم کے مساکین کو دینا واجب ہے ۔(بنایہ شرح الھدایہ، ج4،ص450،مطبوعہ کوئٹہ )

   بدائع الصنائع میں ہے :’’اما الصدقۃ والصوم : فانھما یجزیان حیث شاء ؛وقال الشافعی : لاتجزی ء الصدقۃ الا بمکۃ ؛ وجہ قولہ : ان الھدی یختص بمکۃ فکذا الصدقۃ ، والجامع بینھما : ان اھل الحرم ینتفعون بذلک ، ولنا : قولہ  تعالیٰ﴿ فَفِدْیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُک مطلقا عن المکان  الا ان النسک قید بالمکان بدلیل ، فمن ادعی تقیید الصدقۃ فعلیہ الدلیل ‘‘بہرحال صدقہ اور روزہ ، تو یہ کسی بھی مقام پر ادا کیے جاسکتے ہیں ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مکہ مکرمہ کے علاوہ کہیں اور صدقہ دینا کفایت نہیں کرے گا ، ان کے اس قول کی وجہ یہ ہے کہ ہدی مکہ مکرمہ کے ساتھ خاص ہے، یونہی صدقہ بھی  اور ان دونوں کو جامع یہ بات ہے کہ اہل حرم اس سے نفع اٹھائیں گے ، ہماری دلیل یہ ہے کہ  اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان ’’ ترجمہ کنز الایمان : تو بدلے دے روزے یا خیرات یا قربانی ‘‘مکان کی قید سے خالی ہے ،مگر یہ کہ قربانی دلیل کی وجہ سے  مکان کے ساتھ خاص ہے ،تو جس نے صدقہ کو مقید کرنے کا دعویٰ کیا ہے ،اس پر دلیل لازم ہے ۔(بدائع الصنائع، ج3،ص193، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ )

   حنفی کے لیے اپنے مذہب کے  علاوہ کی رعایت کرنا مستحب ہے، جب تک اپنے مذہب کا مکروہ لازم نہ آئے، جیساکہ امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں  :’’ حتی الامکان چاروں مذہب بلکہ جمیع مذاہب ائمہ مجتہدین کی رعایت ہمارے علماء بلکہ سب علماء مستحب لکھتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ یہ اسی وقت تک ہے کہ اپنے مذہب کے کسی مکروہ کا ارتکاب نہ ہو، ورنہ ایسی رعایت کی اجازت نہیں ۔(فتاویٰ رضویہ، ج8،ص297، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :’’حنفیہ کے لیے شافعیت مالکیت حنبلیت ان کے خلاف کی رعایت رکھنی بالاجماع مستحب ہے ،جب تک اپنے مذہب کامکروہ نہ لازم آتاہو۔(فتاویٰ رضویہ، ج7،ص224، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم