Haram e Madina Mein Shikar Karne Aur Ghas Katne Ka Hukum

حرمِ مدینہ میں شکار کرنے اور گھاس کاٹنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2914

تاریخ اجراء: 22 محرم الحرام1446 ھ/29جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حرم مدینہ شریف  میں شکار کرنے یا خود رو گھاس کاٹنے پر  کفارہ ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ہم احناف کے نزدیک حرم ِ مدینہ  تعظیم و احترام  میں  حرم ِ مکہ کی طرح ہے مگر باقی  احکامات مثلاً شکار کرنے ،خود رو گھاس وغیرہ کاٹنے میں حرمِ مکہ سے مختلف ہے ۔لہٰذا   ہمارے نزدیک حرم ِ مدینہ شریف میں شکار کرنے یا خود رو گھاس کاٹنے پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ مگر اس کی زیب و زینت برقرار رکھنے کے لیے وہاں سے درخت وغیرہ نہ کاٹے جائیں۔

   علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمہ اللہ  اپنی تصنیف لطیف"عمدۃ القاری"میں فرماتے ہیں:”وقال الثوري وعبد الله بن المبارك وأبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد: ليس للمدينة حرم كما كان لمكة، فلا يمنع أحد من أخذ صيدها وقطع شجرها“ ترجمہ:سفیان ثوری ،عبد اللہ بن مبارک ،اما م اعظم ابو حنیفہ ،امام ابو یوسف  اور امام محمد رحمہ اللہ اجمعین نے فرمایا :حرم ِمدینہ کے وہ احکامات نہیں ہیں جس طرح حرم ِ مکہ کے ہیں،لہٰذا کسی کو  حرم ِ مدینہ میں شکار کرنے اور  درخت کاٹنے سے نہیں روکا جائے گا۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،جلد 10 ، صفحہ229 ،دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ "مرقاۃ المفاتیح"میں فرماتے ہیں:”أراد بذلك تحريم التعظيم دون ما عداه من الأحكام المتعلقة بالحرم“ ترجمہ: (نبی کریم صلی اللہ تعالی  علیہ وآلہ  وسلم کا فرمان کہ میں نے مدینہ کو حرم بنا دیا ہے ) اس سے مراد  اس کا تعظیم و احترم ہے نہ  کہ حرم سے وابستہ احکامات۔(مرقاۃ المفاتیح،جلد5، صفحہ 1875 ،دار الفکر، بیروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”حرم مدینہ کو حرم مکہ سے تشبیہ دینا  بعض وجوہ یعنی احترام و تعظیم کے لحاظ سے ہے، نہ کہ تمام وجوہ سے۔“(مرآۃ المناجیح،جلد 4 ،صفحہ212 ،قادری پبلشرز ،لاہور)

   شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ”ہمارے نزدیک مدینہ طیبہ اس معنٰی میں حرم نہیں  کہ اس کے جانوروں کے شکار کرنے ،اس کے درختوں کے کاٹنے، گھاس صاف کرنے پر دم واجب ہو۔ جن احادیث میں ایسا حکم وارد ہے  وہ مؤول ہیں۔ مراد یہ ہے کہ  مدینہ طیبہ کی زیب و زینت باقی رکھنے کیلئے فرمایا کہ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں، میدان صاف نہ کیے جائیں۔“(نزھۃ القاری،جلد 3 ،صفحہ235 ،فرید بک سٹال،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم