Hath Ke Bajaye Ghulail Se Rami Karne Ka Hukum

ہاتھ کی بجائے غُلیل سے رمی کرنے کا حکم؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-454

تاریخ اجراء: 21 ذی الحجۃ الحرام1445ھ/28 جون2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  اگر کسی شخص نے غُلیل(ایک چھوٹا سا آلہ جس سے پتھر پھینکا جاتا ہے)سے رمی کی،تو اس  کے ذریعے کی جانے والی رمی کافی ہوگی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   غُلیل( ایک چھوٹا سا آلہ جس سے کنکری پھینکی جاتی ہے) کے ذریعے کی جانے والی رمی ہرگز کافی نہیں ہوگی ،کیونکہ  رمی  کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ رمی  براہ  راست   ہاتھ کے ذریعے  کی جائے ۔ غُلیل،  یا  کنکری ، پتھر پھینکنے والے کسی بھی    آلہ  سے رمی میں  چونکہ   براہ راست ہاتھ سے رمی کرنا نہیں پایا جاتا ،لہذا اس طرح کسی آلہ وغیرہ کے ذریعے کی جانے والی  رمی   نہیں ہوگی۔واضح رہے کہ  ہاتھ سے رمی کرنے  میں کسی   خاص طریقے کی کوئی    قید نہیں ،بلکہ ہاتھ سے  کی جانے والی رمی  کسی بھی طر یقے سے ہو ،شرعاً جائز و درست  ہے،البتہ   ہاتھ سے رمی کرنے میں مستحب وبہتر   طریقہ یہ ہے کہ کنکری کو   سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے  اور شہادت  کی انگلی سے پکڑ کر، سیدھاہاتھ خوب اٹھا  کر کہ بغل کی رنگت ظاہر ہو،جمرات کی  رمی کی جائے،یہ طریقہ آسان بھی ہے اور عام طور پر  اسی انداز  میں ہی   رمی کی جاتی ہے۔

   علامہ  زین الدین  ابن نجیم مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ بحرا لرائق شرح کنز الدقائق میں اور علامہ ابو البقاء محمد بن احمد ضیاء مکی حنفی رحمۃ اللہ علیہ بحر العمیق میں ارشاد فرماتے ہیں:واللفظ للعمیق:’’ولا یجزئ الرمی عن القوس وشبھہ ،ولا الدفع برجل‘‘ترجمہ:اور کمان اور اس کی مثل کسی چیز سے رمی کافی نہیں ،اور پاؤں سےپتھر   پھینک کر کی جانے والی رمی بھی کافی نہیں ہوگی۔(البحر العمیق،الباب الثانی عشر:فی الاعمال المشروعۃ یوم النحر، صفحہ1672 ،مؤسسۃ الریان)

   رمی براہ راست    ہاتھ سے ضروری ہے،غُلیل آلہ  سے کی جانے والی  رمی  کافی نہیں ہوگی  ،جیسا کہ الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی میں ہے:’’يشترط لصحة الرمی۔۔۔أن يكون الرمي بيد ۔۔۔فلا يكفي الرمي بقوس، ولا الرمي بالرجل ولا بالمقلاع‘‘ملتقطاً ترجمہ:رمی کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ رمی ہاتھ سے ہو۔۔۔۔ ، لہذا کمان سے رمی کافی نہ ہوگی،اور یونہی    پاؤں  سے اور  غُلیل  سے  بھی رمی   کافی نہیں   ہوگی۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ ،جلد3، المطلب الثاني: رمي الجمار ،صفحہ2257، دار الفكر ، دمشق)

   ہاتھ سے کی جانے والی  رمی کسی بھی طریقے سے ہو،شرعاً جائز ہے،جیسا کہ محیط برہانی میں ہے:’’ واختار مشائخ بخارى أنه كيفما رمى فهو جائز؛ لأن المنصوص عليه في الأحاديث الرمي، فبأي طريق أتى بالرمي، فقد أتى بالمنصوص، فيجوز‘‘ترجمہ:اور مشائخ بخاری  کا مختار یہ ہے کہ رمی کرنے والا کسی بھی طرح رمی کرے ،تو یہ جائز ہے،کیونکہ احادیث میں منصوص رمی (کنکری مارنا ) ہے،تو جس طریقے سے بھی کنکری مارے گا،منصوص حکم پر عمل ہوجائے گا،لہذا  رمی کرنا، جائز ہوجائے گا۔(المحیط البرھانی،جلد2،صفحہ430،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   رمی کے مستحب طریقے  سے متعلق لباب المناسک اور اس کی شرح  میں ہے:’’(کیفیۃ الرمی)أی المستحبۃ ۔۔۔(قیل یأخذ  بطرفی ابھامہ  و سبابتہ وھو الاصح)لانہ الایسر والمعتاد عند الاکثر(وھذا بیان الاولویۃ،وأما الجواز فلا یتقید  بھیئۃ بل یجوز کیفما کان )۔۔۔(ویستحب الرمی بالیمنی ویرفع یدہ حتی یری بیاض ابطہ) ‘‘ ملتقطاً۔ترجمہ:رمی کا مستحب  طریقہ  ،تو کہا گیا ہے کہ (وہ طریقہ یہ ہے کہ  رمی کرنے والا) کنکری کو اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے دونو ں کناروں سے  پکڑے  اور یہی زیادہ صحیح ہے، کیونکہ یہ زیادہ آسان  ہے اور اکثر کے نزدیک یہی معتاد ہے،اور یہ  صرف اولویت یعنی بہتر طریقے کا بیان ہے،اوربہرحال جواز تو وہ  کسی طریقے  کے ساتھ مخصوص  نہیں، بلکہ  ہاتھ سے جس طرح بھی  رمی ہو، جائز ہے۔۔۔اور سیدھے ہاتھ سے رمی کرنا مستحب ہے اور یہ کہ رمی کرنے والا   ہاتھ کو اٹھائے یہاں تک کہ اس کی بغل کی سفیدی دکھائی دے ۔(لباب المناسک مع شرحہ،باب مناسک منی،صفحہ 316،317،مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں:’’ سات کنکر یا ں جدا جدا  چٹکی میں لے کر سیدھا  ہا تھ خوب اُٹھا  کر کہ بغل کی رنگت ظاہر ہو(رمی کرو)۔‘‘(بھار شریعت،جلد1،حصہ 6،صفحہ1139،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم