Ahram Ki Halat Mein Wet Tissue Istimal Karna Kaisa ?

احرام میں Wet Tissue (خوشبو سے تر ٹِشو )استعمال کرنا

مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7686

تاریخ اجراء:28جمادی الاولی1443ھ/02جنوری2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ اِحرام کی حالت میں  ایسا ٹشو استعمال کرنا کہ جو خوشبو سے تَر ہوتا ہے، اُسے انگریزی میں بھی ”Wet Tissue“ یعنی گیلا ٹشو  ہی کہا جاتا ہے۔اگر مُحرِم اُس سے  مکمل ہاتھوں کو صاف کرے، تو کیا حکم ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     حالتِ احرام میں خوشبو سے تَر ٹشو (Wet Tissue)کے ذریعے ہاتھوں کو صاف کرنے سے مُحرِم پر دَم واجب ہو گا۔

     اِس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ خوشبودار ٹشو پیپر میں   اگر خوشبو کا عَین موجود ہے یعنی وہ پیپر خوشبو سے بھیگا ہوا ہے ، تو اُس تری کے بدن پر لگنے کی صورت میں   جو حکم خوشبو کا ہوتا ہے ، وُہی اس کا بھی ہوگا ،یعنی اگر خوشبو  قلیل (کم)ہے اورعُضْوِ کامِل(یعنی پورے عُضْو) کو نہیں لگی ، تو مُحرِم  پر صدقہ واجب ہےاور اگر خوشبو کثیر (یعنی زیادہ)ہو یا پورےعُضْو کو لگ جائے ، تو دم  واجب ہے ۔ اب جبکہ سوال کے مطابق مُحرِم نے اُس خوشبو سے بھیگے ٹشوسے مکمل ہاتھ کو صاف کیا تو دَم واجب ہو گا،  کیونکہ ہاتھ ایک کامِل عضو ہے اور کامل عضو کو خوشبو لگنے کی صورت میں دَم واجب ہوتا ہےاور اگر پورے ہاتھ کو نہ لگی، لیکن  اُس ٹشو سے لگنے والی خوشبو اِتنی زیادہ ہو کہ اُس پر ”کثیر“ یعنی بہت زیادہ خوشبوہونے کا اِطلاق ہو تو   بھی دَم واجب ہو گا۔

     اوپر مسئلہ میں ”دَم“ کے واجب ہونے کا ذکر ہوا۔  دَم سے مراد ایک بکرا ہے، اِس میں  نَر، مادہ، دُنبہ، بھیڑ، نیز گائے یا اونٹ کا ساتواں  حصہ سب شامل ہیں، نیز اِس جانور کا حرم میں ذبح ہونا شرط ہے اور مزید یہ کہ اِس دم میں دیے جانے والے جانور میں سے نہ تو  آپ  خود کچھ کھا سکتے ہیں اور نہ  ہی کسی غنی کو کھلا سکتے ہیں، وہ صرف  محتاجوں کا حق ہے۔

     جسم پر خوشبو لگنے کے متعلق علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”لو اصاب جسدہ ای کلہ او عضوا کاملا او اکثر او اقل طیب کثیر فعلیہ دم وان غسل من ساعتہ‘‘ترجمہ:اگر محرم کے پورے جسم پر یا ایک عضوِ کامل یا اس کے اکثرپر خوشبو لگی  یاعضو کے تھوڑے حصے پر کثیر خوشبو لگی تو مُحرِم پر دم واجب ہے، اگرچہ اُس نے اُسے فوراً دھو لیا ہو۔( المسلک المتقسط مع حاشیۃ ارشاد الساری ،فصل فی التداوی بالطیب،صفحہ452،مطبوعہ ملتان)

     ہاتھ عضوِ کامل ہے، علامہ شیخ  رحمت اللہ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:993ھ/1585ء) لکھتے ہیں:’’العضو کالراس واللحیۃ والشارب والید‘‘ ترجمہ:عضو، جیسے سَر، داڑھی، مونچھیں اور ہاتھ ہیں۔ (لباب المناسک مع شرحہ للقاری،باب الجنایات،صفحہ312،مطبوعہ ادارۃ القران و العلوم الاسلامیۃ)

     اگر خوشبو پر ”کثیر“کا اطلاق ہو سکے، تو پھر ”عضوِ کامل“ کا بھی اعتبار نہیں رہتا، بلکہ خوشبو کے کثیر ہونےکی بنیاد پر ہی دَم واجب ہو جاتا ہے، چنانچہ علامہ شیخ  رحمت اللہ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:’’ان کان الطیب کثیرا فالعبرۃ بالطیب ای لا بالعضو‘‘ ترجمہ:اگر خوشبو کثیر ہو، تو  خوشبو کا ہی اعتبار ہو گا، عضو کا اعتبار نہیں ہو گا۔ (لباب المناسک مع شرحہ للقاری،باب الجنایات،صفحہ312،مطبوعہ ادارۃ القران و العلوم الاسلامیۃ)

     دم کی مقدار بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سُنَّت ، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’اِس فصل میں جہاں دَم کہیں گے اس سے مراد ایک بھیڑ یا بکری ہوگی، اوربدنہ اونٹ یا گائے،  یہ سب جانور اُن ہی  شرائط کے ہوں جوقربانی میں ہوں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ757، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

     دم کی ادائیگی حرم میں کرنا ضروری ہے، نیز اُس میں سے خود کچھ نہیں کھا سکتے، چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’ کفارہ کی قربانی یا قارِن ومتمتع کے شکرانہ کی غیر حرم میں نہیں ہو سکتی، اگر غیر حرم میں کی تو ادا نہ ہوئی، نیز شکرانہ کی قربانی سے آپ کھائے، غنی کو کھلائے، مساکین کو دے اور کفارہ کی قربانی صرف محتاجوں کا حق ہے۔ملتقطاً۔‘‘(بھارِ شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ1162،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

     امیرِ اہلِ سنت مولانا الیاس عطار قادری اطال اللہ عمرَہ لکھتے ہیں:’’دَم یعنی ایک بکرا ، اِس میں نر ، مادہ ، دنبہ ، بھیڑ ، نیز گائے یااونٹ کا ساتو اں حصہ سب شامل ہیں۔“(رفیق المعتمرین، صفحہ137،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

     دَم کی مقدار، معیار اور دیگر شرائط کو علامہ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفصیلاً  بیان کیا ہے، اُس کا خلاصہ  وہی ہے جسے اوپر رفیق المعتمرین اور نیچے بھارِ شریعت کی عبارتوں  میں ذکر کر دیا گیا ہے، آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے باقاعدہ اِس عنوان پر فصل بنام ” فصل فی احکام الدماء وشرائط جوازِھا“ قائم فرمائی۔(لباب المناسک، کتاب الحج، صفحہ244، مطبوعہ  دار قرطبۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم