مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Pin-6975
تاریخ اجراء:29شوال المکرم1443ھ/31مئی2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل سوالات کے بارے میں:
(1)جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا اور اس پر حج فرض بھی نہیں،تو کیا اسے حجِ بدل کے لیے بھیج سکتے ہیں؟
(2) حجِ بدل کرنے والا کس کی طرف سےحج کی نیت کرے گا،اپنی طرف سے یا حج کروانے والے کی طرف سے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)شرائط کی موجودگی میں کسی دوسرے سے حج بدل کروا سکتے ہیں،لیکن بہتر یہ ہے کہ حج بدل کے لیے ایسے شخص کو بھیجا جائے، جو متقی و پرہیز گار،حج کے مسائل کو جانتا ہو اور اپنی طرف سے حج ادا کر چکا ہو،تاکہ ارکانِ حج کامل طریقے سے ادا کر سکےاور اگر اس نے پہلے حج نہیں کیااور اس پر حج فرض بھی نہیں،تو اسے بھیجنا بھی جائز ہے اور حج بھی ادا ہو جائے گا،البتہ جس شخص پر حج فرض ہو چکا ہواور اس نے ابھی تک ادا نہ کیا ہو،تو جان بوجھ کر اسے حجِ بدل کے لیے بھیجنا مکروہِ تحریمی ہے۔
شرائط کی موجودگی میں دوسرے سے حج کروا سکتے ہیں۔چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ العبادات ثلاثةانواع :مالية محضة كالزكاة وصدقة الفطر، وبدنية محضة كالصلاة والصوم، ومركبة منهما كالحج. والانابة تجری فی النوع الاول فی حالتی الاختيار والاضطرار، ولا تجری فی النوع الثانی، وتجری فی النوع الثالث عند العجز‘‘عبادات کی تین قسمیں ہیں:فقط مالی:جیسےزکاۃ اورصدقہ فطر۔فقط بدنی:جیسے نمازاور روزہ۔ مالی اور بدنی کا مجموعہ: جیسے حج۔پہلی قسم میں اختیاری اور اضطراری دونوں حالتوں میں (اپنی طرف سے دوسرے کو)نائب بنانا صحیح ہے،اور دوسری قسم میں مطلقاًدرست نہیں اور تیسری میں خود قادر نہ ہونے کے وقت نائب بناسکتے ہیں۔(فتاوی عالمگیری ،ج1،ص283،مطبوعہ کراچی)
حجِ بدل کے لیے کس شخص کو بھیجنا بہتر ہے،اس بارے میں الاختیار لتعلیل المختارمیں ہے:’’والاولى ان يختار رجلا حرا عاقلا بالغا قد حج، عالما بطريق الحج وافعاله، ليقع حجه على اكمل الوجوه‘‘ترجمہ:بہتر یہ ہے کہ حج کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کرے جو آزاد، عاقل بالغ اور اس نے پہلے حج کر لیا ہو ،اور حج کے راستے اور اس کے افعال کو جانتا ہو ،تاکہ کامل طریقے سے اس کا حج ادا ہو جائے۔(الاختیار لتعلیل المختار،ج1،ص171،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
اور اس مسئلے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’بہتر یہ ہے کہ حج بدل کے لیے ایسا شخص بھیجا جائے،جو خود حجۃ الاسلام ادا کرچکا ہو اور اگر ایسے کوبھیجا، جس نے خود نہیں کیا ہے، جب بھی حجِ بدل ہو جائے گا،اور اگر خود اس پر حج فرض ہو اور ادانہ کیا ہو، تو اسے بھیجنا مکروہِ تحریمی ہے۔ (بھار شریعت،ج1،ص1204،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اورمفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’حج بدل میں ایسے شخص کو بھیجنا چاہئے ،جو متقی،پر ہیزگار اور حج کے مسائل جاننے والا ہو،اگر پہلے حج کر چکا ہے تو زیادہ اچھاہے،اور اگر پہلے حج نہیں کیا جب بھی بھیجنا جائز ہے۔ (وقار الفتاوی،ج2،ص 467،مطبوعہ بز م وقار الدین،کراچی)
(2)حجِ بدل کرنے والے کے لیے محجوج عنہ( یعنی جس کی طرف سے حج کر رہا ہے،اس) کی طرف سے حج کی نیت کرنا ضروری ہے،اپنی طرف سے حج کی نیت نہیں کر سکتا ،اگر اپنی طرف سے کرے گا،تو حج کروانے والے کا حج ادا نہیں ہو گا۔
مناسک ملا علی قاری میں حجِ بدل کی شرائط کے بیان میں ہے:’’(التاسع النیة)ای نیة المحجوج عنہ عند الاحرام اوبعدہ عند الامام قبل ان یشرع فی افعال الحج (وھی ان یقول)ای بلسانہ وھو افضل(احرمت عن فلان)ای نویت الحج عن فلان۔۔۔ (وان شاء اکتفی)ای عنہ(بنیۃ القلب)ای لہ“ترجمہ:نویں شرط نیت ہے ،یعنی احرام کے وقت محجوج عنہ(جس کی طرف سے حج کر رہا ہے،اس )کی طرف سے نیت ہو۔امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک احرام کے بعد اورحج کے افعال شروع کرنے سے پہلے بھی نیت ہو سکتی ہے اور نیت یہ ہے کہ بندہ زبان سے یوں کہے(زبان سے نیت کرنا افضل ہے)کہ میں نے فلاں کی طرف سے احرام باندھا،یعنی میں نے فلاں کی طرف سے حج کی نیت کی اور اگر چاہے،تو اس کی طرف سے دل کی نیت پر اکتفا کر لے۔ (مناسک ملا علی قاری،ص442،مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ،کراچی)
اور بدائع الصنائع میں حجِ بدل کی شرائط کے بیان میں ہے:”منھا:نیة المحجوج عنہ عند الاحرام،لان النائب یحج عنہ،لاعن نفسہ،فلابد من نیتہ‘‘ترجمہ:حجِ بدل کی شرائط میں سے یہ ہے کہ احرام کے وقت محجوج عنہ(جس کی طرف سے حج کر رہا ہے،اس )کی طرف سے نیت ہو،کیونکہ نائب(حج کرنے والا)حج کروانے والے کی طرف سے حج کر رہا ہے،نہ کہ اپنی طرف سے،لہذا اسی کی طرف سے نیت کرنا ضروری ہے۔(بدائع الصنائع،ج 2،ص456،مطبوعہ کوئٹہ)
اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حج بدل کی شرائط کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:”حجِ بدل کرنے والا تنہا ایک محجوج عنہ کی طرف سے حجِ واحد کی نیت کرے،مثلا:’’احرمت عن فلان یا اللھم لبیک عن فلان‘‘اگر اس کی طرف سے نیت نہ کی یا دو حج کی نیت کی،ایک اس کی طرف سے، ایک اپنی طرف سے یا دو شخصوں کی طرف سے نیت کی، ایک اس کی جانب، ایک منیب آخر کی جانب سے، تو کافی نہ ہوگا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج10،ص660،مطبوعہ رضا فاﺅنڈیشن،لاھور)
نوٹ:حجِ بدل کی شرائط اور ان کے مختلف احکام جاننے کے لیے بہارِ شریعت،ج1،حصہ6،ص1201سے حجِ بدل کی شرائط کا مطالعہ فرمائیں ۔رفیق الحرمین ص208تا212پر بھی ان کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟