Kya Fi Zamana Safri Saulat Ke Pesh e Nazar Aurat Baghair Mehram Safar e Hajj Kar Sakti Hai?

کیا فی زمانہ سفری سہولیات کے پیشِ نظر عورت بغیر محرم سفرِ حج کر سکتی ہے؟

مجیب:مولانا عرفان مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6878

تاریخ اجراء:13شوال المکرم1441ھ/05جون 2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زیدکاکہناہے کہ آج کے دورمیں سفرمیں بہت سہولیات پیدا ہوچکی ہیں،سفرآسان،محفوظ اورتیزہوچکاہےاورحج کےلیے عورتوں کےحکومتی سطح پرگروپس تیارکیے جاتے ہیں،توعورتیں محفوظ ہوتی ہیں،لہذاآج کے دورمیں عورت بغیرمحرم کے سفرحج کرسکتی ہےاوراحادیث میں جوبغیرمحرم کے سفرکی ممانعت ہے وہ پہلے دورکے اعتبارسے ہے جب سفراونٹوں گھوڑوں پرہوتاتھا،سفرکرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھےاورغیرمحفوظ بھی ہوتاتھااوروہ اپنی دلیل کے طور پر یہ روایت بھی بیان کرتاہے کہ :’’قال فإن طالت بك حياة، لترين الظعينة ترتحل من الحيرة، حتى تطوف بالكعبة لا تخاف أحدا إلا اللہ قال عدي: فرأيت الظعينة ترتحل من الحيرة حتى تطوف بالكعبة لا تخاف إلا اللہ‘‘ ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت عدی رضی اللہ تعالی عنہ سے)ارشادفرمایا: اگرتمہاری عمرلمبی ہوئی، توتم اونٹ پرسوارعورت کودیکھوگے کہ وہ حیرہ سے سفرکرے گی، یہاں تک کہ  کعبہ کاطواف کرے گی اس حال میں کہ اسے اللہ تعالی کے سواکسی کاخوف نہیں ہوگا،حضرت عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:میں نے اونٹ پرسوارعورت کودیکھاجوحیرہ سے چل کرخانہ کعبہ کاطواف کررہی تھی اس حال میں کہ اسے اللہ تعالی کے سواکسی کاخوف نہیں تھا۔

(صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،ج04،ص197،دارطوق النجاۃ)

    زیداس سے استدلال کرتے ہوئے کہتاہے کہ اس سے پتاچلاجب امن وامان اورمحفوظ سفر ہو، توعورت تنہاسفرحج کرسکتی ہے ۔شرعی رہنمائی فرمائیں کہ زیدکایہ استدلال درست ہے یانہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    زیدکایہ استدلال اورعندیہ شرعادرست نہیں ہے ۔جس کی چندوجوہ درج ذیل  ہیں :

    (الف)نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبرعطافرمائی تھی کہ ایساہوگا،لیکن یہ کہاں فرمایاکہ ایساشرعادرست ہوگااوراس وقت عورتوں کوبغیرمحرم سفرشرعی کرنے کی اجازت ہوگی،جبکہ اس کےمقابل واضح طورپراحادیث میں بغیرمحرم سفرکی ممانعت فرمائی ہے ۔

    (ب)نیزسوال میں مذکورروایت میں توعورت کے تنہاسفرکرنے کاذکرہے، جبکہ زیدرفقااورخواتین  کے گروپ کے ساتھ سفرکرنے کی بات کررہاہے، توزیدکاموقف  اس روایت کے بھی مطابق نہیں ۔

    (ج)نیززیدنے آج کے دورکی بات کی ہے،جبکہ سوال میں مذکورروایت میں توپچھلے دورکی بات ہےاورسوال میں موجود روایت کے مطابق اس وقت اتناپرامن دورتھاکہ تنہاعورت کو سفرکرنے کی صورت میں کسی لُٹیرےوغیرہ کاخوف نہیں تھا،جبکہ ہمارے اس دورمیں امن کی یہ حالت نہیں ہے کہ بغیرکسی کی معیت کے عورت تنہا اتناسفرکرے اوراسے کسی لُٹیرے وغیرہ کاخوف ہی نہ ہو،تویوں بھی زیدکااستدلال درست نہیں ۔

    (د)نیززیدبھی صرف سفرحج بغیرمحرم کرنے کاذکرکررہاہے ،جبکہ بعض روایات میں غیرحج کے بھی عورت کے تنہاسفرکرنے کاواقعہ بیان کیاگیاہے،تواگرزیدکے طریقہ استدلال کواختیارکیاجائے،تواس کامطلب یہ ہوگاکہ غیرسفرحج کے لیے بھی عورت بغیرمحرم کے سفرکرسکتی ہے ،جبکہ یہ بات اجماع کے خلاف ہے ۔

    عورت کوبغیرمحرم کے سفرکرنے سے ممانعت کے متعلق روایات:

    صحیح بخاری میں ہے:’’قال النبي صلى اللہ عليه وسلم:لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم،ولا يدخل عليها رجل إلا ومعها محرم، فقال رجل:يا رسول اللہ إني أريدأن أخرج في جيش كذا وكذا وامرأتي تريد الحج، فقال: اخرج معها‘‘ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:عورت بغیرمحرم کے سفرنہ کرے اورمحرم کی غیرموجودگی میں کوئی اس کے پاس نہ آئے،اس پرایک شخص نے عرض کی:یارسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم !میں فلاں فلاں لشکرمیں جاناچاہتاہوں اورمیری عورت حج کرناچاہتی ہے ،پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم اپنی عورت کے ساتھ جاؤ۔  

(صحیح البخاری،باب حج النساء،ج03،ص19،دارطوق النجاۃ)

    مزیدبخاری شریف میں ہے :’’ولا تسافرن امرأة إلا ومعها محرم، فقام رجل فقال: يا رسول اللہ،اكتتبت   في غزوة كذ ا وكذا، وخرجت  امرأتي  حاجة، قال:  اذهب  فحج  مع     امرأتك‘‘ترجمہ:اورہرگزکوئی عورت بغیرمحرم کے سفرنہ کرے،اس پرایک شخص کھڑاہوکرعرض گزارہوا،میرانام فلاں فلاں غزوے میں لکھاگیاہے اورمیری عورت حج کے ارادے سے نکلی ہے ،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم جاؤاوراپنی عورت کے ساتھ حج کرو۔    

(صحیح البخاری،کتاب الجھاد،ج04،ص59،دارطوق النجاۃ)

   صحیح مسلم شریف میں یہی روایت یوں بیان کی گئی ہے:’’ولا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم، فقام رجل، فقال: يا رسول اللہ، إن امرأتي خرجت حاجة، وإني اكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال:    انطلق فحج  مع  امرأتك‘‘ ترجمہ: اورعورت  بغیرمحرم کے  سفر نہ کرے،پس  ایک شخص کھڑے ہوکرعرض گزارہوا:یارسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم میری عورت حج کے لیے نکلی اورمیرانام فلاں فلاں غزوے میں لکھاگیاہے ،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جاکراپنی عورت کے ساتھ حج کرو۔

       (صحیح مسلم،باب سفرالمراۃ مع محرم الی حج وغیرہ،ج02،ص978،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

     غیرحج کے لیے عورت کے سفرکاواقعہ:

    ترمذی شریف میں ہے :’’فإني لا أخاف عليكم الفاقة، فإن اللہ ناصركم ومعطيكم حتى تسير الظعينة فيما بين يثرب والحيرة أو أكثر ما يخاف على مطيتها السرق‘‘ترجمہ:مجھے تم پرفاقہ کاکوئی خوف نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی تمہارامددگاراورتمہیں عطافرمانے والاہے ،یہاں تک کہ اونٹ پرسوارعورت یثرب اورحیرہ کے درمیان کی مسافت یااس سے زیادہ کی مسافت  اس حال میں طے کرے گی کہ اس کی سواری پرچورکاخوف نہیں ہوگا۔

                  (جامع ترمذی،ابواب تفسیرالقرآن،ج05،ص53،بیروت)

    زیدکی ذکرکردہ روایت کے جوابات:

    جوحدیث پاک زیدنے اپنے استدلال میں پیش کی ہے ،اس کے جواب میں محقق علی الاطلاق،حضرت علامہ امام ابن ہمام علیہ الرحمۃ فتح القدیرمیں فرماتے ہیں:’’وأما حديث عدي بن حاتم، فليس فيه بيان حكم الخروج فيه ما هو ولا يستلزمه، بل بيان انتشار الأمن، ولو كان مفيدا لاباحة كان نقيض قولهم فإنه يبيح الخروج بلا رفقة ونساء ثقات ‘‘ترجمہ:اورجہاں تک معاملہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کاہے، تو اس روایت میں اس دورمیں سفرکرنے کاحکم بیان نہیں کیاگیاکہ حکم کیاہے؟اورنہ یہ اس کومستلزم ہے ،بلکہ اس میں توامن وامان کے عام ہونے کابیان ہے اوراگربالفرض اس میں سفرکرنے کے حکم کابیان ہو،تویہ شوافع کے موقف کے برخلاف ہوگاکہ  اس صورت میں روایت بغیررفقاء اورثقہ عورتوں کے تنہا عورت کوسفرکرنے کی اجازت ثابت کرے گی۔(جبکہ شوافع کے نزدیک توعورت ثقہ عورتوں کے ساتھ سفرکرسکتی ہے،تنہاسفرنہیں کرسکتی)

(فتح القدیر،کتاب الحج،ج02،ص421،دارالفکر،بیروت)

    بنایہ شرح ہدایہ میں اس کے تحت ہے:’’قلت: حديث عدي هذا يدل على الوقوع، ولا يدل على الجواز بوجه من وجوه الدلالة بمطابقته، ولا بالتزامه؛ لأنه ورد في معرض الثناء على الزمان بالأمن والعدل، وذكر خروج المرأة على ذلك بلا خفير لبيان الاستدلال عليه، ولا يقال: تأخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز؛ لأنا نقول: ما أخره بل بين حرمة خروجها في عدة أحاديث صحيحة ثابتة.‘‘ترجمہ:میں کہتاہوں:حدیث عدی اس بات پردلالت کرتی ہے کہ ایسامعاملہ وقوع پذیرہوگااوراس میں دلالت کے کسی طریقہ کے مطابق نہ دلالت مطابقیہ کے مطابق  اورنہ دلالت التزامیہ کےمطابق اس کے جوازکی دلیل نہیں ہے ،کیونکہ اس روایت میں اس زمانے کے عدل اورامن وامان کے ذریعے اس کی تعریف بیان کی گئی ہے اوراس عدل وامن وامان پراستدلال کے طورپربیان کیاگیاہے کہ عورت بغیرکسی محافظ کے سفرکرے گی،اوریہ اعتراض نہیں کیاجائے گاکہ وقت حاجت سے بیان کومؤخرکرنا،جائزنہیں ہوتا،کیونکہ ہم کہیں گے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے بیان کوموخرنہیں فرمایا،بلکہ کئی احادیث صحیحہ ثابتہ میں عورت کے تنہاسفرکی حرمت کوبیان فرمایاہے۔

 (البنایۃ شرح الھدایۃ،کتاب الحج،ج04،ص153،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

    تبیین الحقائق میں ہے :’’وحديث عدي يدل على الوقوع وليس فيه دلالة على الجواز فلايلزم حجة وهذا لأنه - عليه الصلاة والسلام - ساق الكلام لبيان أمن الطريق من العدل لا لبيان أنها يجوز لها أن تسافر بغير محرم ولا زوج،نظيره قوله - عليه الصلاة والسلام -فبہ ليأتين على الناس زمان تسير الظعينة من مكة إلى الحيرة لا يأخذ أحد بخطام راحلتها الحديث وأجمعوا   أنها لايحل لها أن تسير من مكة إلى الحيرة ولا من بلد إلى بلد آخر بالقياس عليه‘‘ترجمہ:اورحضرت عدی رضی اللہ تعالی عنہ والی روایت صرف اس پردلالت کرتی ہے کہ ایساواقع ہوگااوراس میں اس کے جائزہونے کی دلیل نہیں ہے، پس یہ ہمارے خلاف حجت نہیں بن سکتی اوریہ اس لیے ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے کلام مبارک اس زمانے میں  عدل وانصاف کی وجہ سے راستے کےامن کوبیان کرنے کے لیے فرمایاہے،نہ یہ بیان کرنے کے لیے کہ اسے بغیرمحرم اورشوہرکے سفرکرنا،جائزہوگا،اس کی نظیرآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کایہ فرمان ہے کہ لوگوں پرایک زمانہ آئے گاکہ اونٹ پرسوارعورت مکہ سے حیرہ کی طرف سفرکرے گی اس کی سواری کی نکیل کوکوئی تھامنے والانہیں ہوگااورسب کااجماع ہے کہ اس پرقیاس کرتے ہوئے  عورت کے لیے مکہ سے حیرہ کی طرف اورکسی شہرسے دوسرے شہرکی طرف سفرکرناحلال نہیں ہے ۔

 (تبیین الحقائق،کتاب الحج،ج02،ص06،القاھرۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم