Kya Aurat Kisi Mard Ki Taraf Se Hajj e Badal Kar Sakti Hai ?

کیا عورت کسی مرد کی طرف سے حجِ بدل کر سکتی ہے ؟

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2659

تاریخ اجراء: 13شوال المکرم1445 ھ/22اپریل2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   عورت کسی مرد کا حجِ بدل کر سکتی ہے یا عورت عورت کا ہی حجِ بدل کر سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حج بد ل میں کوئی ایسی شرط نہیں ہے کہ مرد کی طرف  سے حج  کروانا ہو تو مرد کو اور عورت کی طرف سے کرواناہوتو عورت کو بھیجا جائے ،بلکہ مرد کی طرف سے عورت کو اور عورت کی طرف سے مرد کو  حج بدل کے لئے بھیجنا جائز ہے ۔ البتہ! مستحب اوربہتر یہ ہے کہ مرد کو بھیجا جائے اورافضل یہ ہے کہ ایسےشخص کو بھیجیں جو حج کے طریقے اور اُس کے افعال سے آگاہ ہولیکن اگر عورت کوبھیج دیاتویہ بھی جائزہے۔

   اور اگر عورت کوبھیجا  گیا تو اگرچہ حج بدل ہو جائے گا جبکہ اپنی شرائط کے ساتھ درست ادا ہو جائے مگر اس میں یہ ضروری ہے کہ  عورت بغیر محرم سفر نہ کرے کہ اس کا بغیر محرم و شوہر شرعی سفر کی مسافت(92کلو میٹر)سفرکرنا  حرام ہے لہٰذا جسے معلوم ہو کہ یہ عورت بغیر محرم ہی اتنا سفر کرے گی تو اس کا بھیجنا بھی گناہ ہوگا کہ یہ گناہ پر مدد دینا ہے  ۔

   صحیح بخاری  میں حضرت  ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے  کہ”قالت: يا رسول الله إن فريضة الله على عباده في الحج أدركت أبي شيخا كبيرا لا يستطيع أن يستوي على الراحلة فهل يقضي عنه أن أحج عنه؟ قال: «نعم»‘‘یعنی: ایک عورت نے عرض کی، یا رسول اﷲ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) بے شک اللہ کا فرض اس کے بندوں پر حج میں ہے اورمیرے باپ پر حج فرض ہے اور وہ بہت بوڑھے ہیں کہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے کیا ان کی طرف سے میرا حج کرناکفایت کرے گا؟ فرمایا: ''ہاں۔'' (صحیح بخاری،رقم الحدیث 1854،ج 3،ص 18،دار طوق النجاۃ)

   عمدۃ القاری میں ہے :’’ وفيه: دليل على أن المرأة يجوز لها أن تحج عن الرجل، وهو حجة علي الحسن بن حي، رحمه الله تعالى، في منعه عن ذلك،‘‘ یعنی اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے لئے جائزہے کہ مرد کی طرف سے حج(بدل)کرےاور اس سے منع کرنے میں علی حسن بن  حی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پریہ حدیث حجت ہے۔(عمدۃ القاری،ج9،ص128، دار إحياء التراث العربي)

   در مختار میں ہے” (فجاز حج الصرورة) بمهملة: من لم يحج (والمرأة) ولو أمة (والعبد وغيره) كالمراهق وغيرهم أولى لعدم الخلاف“ترجمہ:جس نے خود حج نہ کیا ہو،اس کا حجِ بدل کرنا بھی جائز ہے،یونہی عورت اگرچہ لونڈی ہو،اور غلام وغیرہ مثلاً مراہق ،ان سب کا حجِ بدل کرنا جائز ہے،اور ان کے علاوہ کا حجِ بدل کرنا بہتر ہے کہ ان میں اختلاف نہیں۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے” (قوله وغيرهم أولى لعدم الخلاف) أي خلاف الشافعي فإنه لا يجوز حجهم كما في الزيلعي ح. ولا يخفى أن التعليل يفيد أن الكراهة تنزيهية لأن مراعاة الخلاف مستحبة “ترجمہ:(مصنف کا قول:ان کے علاوہ بہتر ہیں اختلاف نہ ہونے کی وجہ سے)یعنی امام شافعی کا اختلاف کہ ان کے نزدیک عورت غلام وغیرہ کا حجِ بدل کرنا جائز نہیں جیسا کہ زیلعی میں ہے،ح ،اور مخفی نہیں کہ تعلیل کراہت تنزیہی کا افادہ کرتی ہے کیونکہ اختلاف کی رعایت کرنا مستحب ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحج،ج 2،ص 603، دار الفکر،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے”افضل یہ ہے کہ ایسے شخص کو بھیجیں جو حج کے طریقے اور اُس کے افعال سے آگاہ ہو اور بہتر یہ ہے کہ آزاد مرد ہو اور اگر آزاد عورت یا غلام یا باندی یا مراہق یعنی قریب البلوغ بچہ سے حج کرایا جب بھی ادا ہو جائے گا۔"(بہار شریعت، جلد 01، حصہ06، صفحہ1204، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم