Kya Esal e Sawab Ke Liye Nafli Tawaf Kar Sakte Hain Aur Is Mein 1 Chakkar Kafi Hai ?

کیا ایصال ثواب کے لیے نفلی طوا ف کر سکتے ہیں  اور اس میں ایک چکر کافی ہے ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8878

تاریخ اجراء:21شوال المکرم1445ھ/30اپریل2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں  کہ کیا مرحوم والدین کی طرف سے ایصالِ ثواب کے طور پر نفلی طواف کر سکتے ہیں ؟ اگر کر سکتے ہیں ، تو کیا سات چکر پورے  کرنے ہوں گے یا صرف ایک چکر ہی سے طواف ادا ہو جائے گا؟

   نوٹ:والدین کی طرف سے اس کی  کوئی وصیت وغیرہ نہیں تھی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   والدین یا دیگر مسلمانوں کے ایصالِ ثواب کے لیے کوئی بھی نیک کام مثلاً حج، عمرہ، طواف، نماز،روزہ، صدقہ وغیرہ کر سکتے ہیں  اور  اُس عمل کا ثواب انہیں پہنچا سکتے ہیں، خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں، لہٰذا  پوچھی گئی صورت میں اپنے مرحوم والدین  کو ثواب پہنچانے  کی نیت سےنفلی طواف کرنا  صرف جائز ہی نہیں ، بلکہ اچھا عمل ہے۔

    البتہ شرعی طور پر  مکمل طواف  نیتِ عبادت کے ساتھ خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے کا نام ہے اور اس کو ادھورا چھوڑ دینا، ناجائز وگناہ ہےاگرچہ وہ نفلی طواف ہو، کیونکہ نفلی طواف جب شروع کر دیا  جائے، تو مثلِ نماز اس کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے، لہٰذا  اگر کسی شخص نے  نفلی طواف شروع کر کے اس کے اکثر یعنی چار یا اس سے زائد پھیرے چھوڑ دیے، تو دَم لازم ہوگا اور اگر چار سے کم، مثلاً ایک، دو یا تین پھیرے چھوڑ دیے، تو ہر پھیرے کے عوض ایک صدقہ  فطر لازم ہوگا اور دونوں صورتوں میں رہ جانے والے پھیرے اگر مکمل کرلیے، تو پہلی صورت میں دَم اور دوسری صورت میں لازم ہونے والے صدقے ساقط ہو جائیں گے۔

   کسی بھی نیک عمل کی برکت سے دوسرے کو فائدہ پہنچنے کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌترجمہ کنزالعرفان:اوران کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، بہت رحمت والا ہے۔(القرآن،پارہ28،سورۃ الحشر،آیت10)

   مذکورہ بالاآیت کے متعلق تفسیر مظہری میں ہے:”قال السيوطی وقد نقل غير واحد الاجماع على ان الدعاء ينفع الميت ودليله من القرآن قوله تعالى﴿وَالَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِترجمہ:امام سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: کئی علماء نے اس بات پر اِجماع نقل کیا ہے کہ دعامیت کو فائدہ دیتی ہے اور اس کی دلیل قرآن پاک سے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِہے۔ (تفسير مظهری، جلد 09، صفحہ 127، مطبوعہ کوئٹہ)

   سنن ترمذی کی حدیث پاک ہے:”عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه قال:كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم   اذ اتته امراة، فقالت: يا رسول الله، اني كنت تصدقت على امي بجارية، وإنها ماتت. قال: وجب اجرك وردها عليك الميراث، قالت: يا رسول الله، انها كان عليها صوم شهر، افاصوم عنها؟ قال: صومي عنها. قالت: يا رسول الله، انها لم تحج قط، افاحج عنها؟ قال: نعم، حجي عنهاترجمہ:حضرت عبد اللہ بن بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک عورت  نے حاضر ہو کر عرض کی: یارسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی بطور صدقہ دی تھی اور وہ وفات پاگئیں، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تمہارا ثواب ثابت ہوگیا، اور وراثت نے وہ(لونڈی) تمہیں لوٹا دی، اس نے عرض کی: یارسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!ان کے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے، تو  کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تم ان کی طرف سے روزے رکھ لو، اس نے عرض کی: یارسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!انہوں نے کبھی حج نہیں کیا، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:ہاں! تم ان کی طرف سے حج کر لو۔ (سنن الترمذی، جلد2،صفحہ47،مطبوعہ دار الغرب الاسلامي ، بيروت)

   مذکورہ حدیث مبارکہ کے الفاظ" نعم حجی عنها"کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں: ای سواء وجب عليها ام أوصت به أم لا“ترجمہ:یعنی خواہ ان پر حج واجب ہو، یا انہوں نے اس کی وصیت کی ہو یا بغیر وصیت کے (نفلی) حج ہو، (لہذا انکی طرف سے کرلو    (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،جلد4،صفحہ1359،مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:الاصل ان كل من اتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وان نواها عند الفعل لنفسهترجمہ:  قاعدہ یہ ہے  کہ ہر وہ شخص  جو کوئی بھی عبادت کرے، اس کے لیے جائز ہے کہ اس کا ثواب کسی دوسرے کے لیے کردے، اگرچہ ادائے عبادت کے وقت   خود اپنے لیے اسے  کرنے کی نیت کی ہو۔

   مذکورہ عبارت کے الفاظ" بعبادة ما"کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:ای سواء كانت صلاة او صوما او صدقة او قراءة او ذكرا أو طوافا او حجا او عمرةاو غیرہ ترجمہ:  خواہ وہ عبادت نماز، روزہ، صدقہ، قراءت، ذکر ، طواف، حج ، عمرہ یا اس کے علاوہ کوئی اور (نیک کام) ہو۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، جلد4، صفحہ12، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:رہا ثواب پہنچانا کہ جو کچھ عبادت کی اُس کا ثواب فلاں کو پہنچے، اس میں کسی عبادت کی تخصیص نہیں ہر عبادت کا ثواب دوسرے کو پہنچا سکتا ہے، نماز، روزہ، زکاۃ ، صدقہ، حج، تلاوت قرآن، ذکر، زیارت قبور، فرض و نفل سب کا ثواب زندہ یا مردہ کو پہنچا سکتا ہے۔“(بھار شریعت ، جلد1،صفحہ 1201،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   طواف کی تعریف کے متعلق التعریفات الفقہیہ میں ہے:”الطواف شرعا هو الدوران حول البيت الحرام“ترجمہ: شرعی طور پر طواف خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانے کا نام ہے۔ (التعریفات الفقھیۃ، صفحہ 138،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   نفلی طواف بھی ادھورا چھوڑنا ، ناجائز وگناہ ہے، اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”طواف  اگرچہ نفل ہو،  اس میں یہ باتیں حرام ہیں:۔۔۔ سات پھیروں سے کم کرنا (بھی ان میں شامل ہے۔) “(فتاویٰ رضویہ، جلد10،صفحہ744،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   نفلی طواف جب شروع کر دیا  جائے، تو اس کو پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے، چنانچہ علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:لو شرع فیہ او فی طواف التطوع یجب علیہ اتمامہترجمہ:اگر کوئی طوافِ قدوم یا نفلی طواف شروع کر لے، تو اُس پر طواف کو مکمل کرنا واجب ہوگا۔( المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط ، صفحہ389 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   نفلی طواف کا حکم طوافِ قدوم کی طرح ہے، جیسا کہ علامہ شیخ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:993ھ/1585ء) لکھتے ہیں:حکم کل طواف تطوع كحكم طواف القدوم“ترجمہ: ہر نفلی طواف کا حکم طوافِ قدوم کے حکم کی طرح ہے۔(لباب المناسک، صفحہ217،مطبوعہ دارقرطبۃ)

   طوافِ قدوم کے اکثریا اقل پھیرے چھوڑ  دینے کا حکم طوافِ صدر کی طرح ہے، جیسا کہ علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:لو ترک بعضہ لم  اجد فیہ تصریحاً ، وینبغی ان یکون الحکم کحکم فی طواف الصدر، فانہ وجب بالشروعترجمہ:اگر کسی نے طوافِ قدوم کے بعض چکر ترک کیے، تو اس بارے میں حکم کی تصریح میں نے نہیں پائی اور چاہیے کہ اس میں ویسا ہی حکم ہو، جیسا طوافِ صدر میں حکم ہے۔( المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط ، صفحہ389 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:لم يصرحوا بحكم طواف القدوم لو شرع فيه وترك اكثره او اقله؟  والظاهر أنه كالصدر لوجوبه بالشروعترجمہ:فقہائے کرام نے اس بارے میں تصریح نہیں کی کہ اگر کسی نے طوافِ قدوم شروع کیا اور اس کے اکثریا اقل پھیرے چھوڑ دیئے، تو کیا حکم ہے؟ اور ظاہر یہ ہے کہ طواف شروع کرنے کے سبب واجب ہونے کی وجہ سے یہ   طوافِ صدر کی مثل ہے۔(حاشیۃ ابن عابدین، جلد3، صفحہ665، مطبوعہ  کوئٹہ)

   طواف شروع کر کے اس کے اکثر  یا اقل پھیروں کو چھوڑ دینے کے متعلق المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط میں ہے:(من ترک طواف الصدر کلہ او اکثرہ فعلیہ شاۃ) ای لترک الواجب (وما دام فی مکۃ یؤمر بان یطوفہ ، وان ترک ثلاثۃ اشواط منہ، فعلیہ لکل شوط صدقۃ) ای فیطعم ثلاثۃ مساکین، کل مسکین نصف صاع من بریعنی جو شخص مکمل یا اکثر طوافِ صدر چھوڑ دے، تو اس پرترکِ واجب کی وجہ سے دم لازم ہوگا اور جب تک مکہ میں ہے اُسے طواف کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ اور اگر طوافِ صدر کے تین پھیرے چھوڑ دے، تو ہر پھیرے کے عوض اس پر ایک صدقہ لازم ہوگا،  یعنی وہ تین مساکین کو کھانا کھلائے گا  ،ہر مسکین کو نصف صاع گندم  ۔( المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط ، صفحہ388 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:اما القدوم۔۔۔ لو ترك اقله تجب فيه صدقة ولو ترك اكثره يجب فيه دم لانه الجابر لترك الواجب في الطواف كسجود السهو في ترك الواجب في النافلةیعنی اگر کسی نے طوافِ قدوم کے اقل چکر چھوڑے، تو اس پر صدقہ لازم ہوگا اور اگر اس کے اکثر چکر چھوڑے، تو اس پر دَم لازم ہوگا، کیونکہ طواف میں واجب چھوڑنے کی وجہ سے دَم اسی طرح ہے، جیسے نفلی نماز میں واجب کو ترک کرنے میں سجدۂ سہو  لازم ہوتا ہے۔(حاشیۃ ابن عابدین، جلد3، صفحہ581، مطبوعہ  کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:” طوافِ رخصت (جسے طوافِ صدر بھی کہتے ہیں، اس کا )  کل یا اکثر ترک کیا، تو دَم لازم اور چار پھیروں سے کم چھوڑا ، تو ہر پھیرے کے بدلے میں ایک صدقہ۔“ (بھارِ شریعت ، جلد13،حصہ 06، صفحہ1176،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   دونوں صورتوں میں رہ جانے والے پھیرے اگر مکمل کرلیے، تو  دَم یا صدقہ ساقط ہو جائے گا، جیسا کہ لباب المناسک میں ہے:فان اعادہ سقط عنہ الدمترجمہ:لہٰذا اگر اس ( یعنی اکثر رہ جانے والے پھیروں کا) اعادہ کر لیا، تو  دَم ساقط ہو جائے گا۔ (لباب المناسک، صفحہ214،مطبوعہ دارقرطبۃ)

   المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط میں ہے:(وان اعادہ سقطت ای )الصدقۃترجمہ:اور اگر اس  (یعنی اقل رہ جانے والے پھیروں  کا) اعادہ کر لیا، تو صدقہ ساقط ہو جائے گا۔( المسلک المتقسط شرح المنسک المتوسط ، صفحہ383 ،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم