Kya Farz Hajj Ke Liye Maa Baap Ki Ijazat Zaroori Hai ?

کیافرض حج کی ادائیگی کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12378

تاریخ اجراء:        01صفر المظفر1444 ھ/29اگست2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ کیا فرض حج ادا کرنے کےلئے والدین کی اجازت ضروری ہے ؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فرض حج کی ادائیگی کے لیے والدین کی اجازت ضروری نہیں اور نہ ہی انہیں اس سے منع کرنے کا اختیار ہے، لہذا اگر کسی پر حج فرض ہوچکا ہواور والدین فرض  حج پر جانے سے منع کریں  تب بھی فرض حج پر جانا ضروری ہوگا ،کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ 

   چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”عن علی  رضي الله عنه ان النبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم قال لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ انما الطاعۃ فی المعروف“یعنی حضرتِ علی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل کی نافرمانی میں (کسی مخلوق کی) اطاعت جائز نہیں، (مخلوق کی) اطاعت تو فقط بھلائی والوں کے کاموں میں ہی جائز ہے۔ (صحیح البخاری ،ج 02، ص1078-1077،مطبوعہ کراچی، ملخصاً )

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”زید خرچ زاد راہ آمدورفت کا اپنی ذات خاص سے رکھتا ہے اگر والدین اجازتِ حج مکہ معظمہ کی نہ دیں تو حج نامبردہ کا ہوسکتا ہے یا کیا؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”جبکہ زید اپنے ذاتی روپے سے استطاعت رکھتا ہے تو حج اس پر فرض ہے،اور حجِ فرض میں والدین کی اجازت درکار نہیں بلکہ والدین کو ممانعت کا اختیار نہیں، زید پر لازم ہے کہ حج کو چلا جائے اگرچہ والدین مانع ہوں۔(فتاوی رضویہ، ج10، ص 658، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)

   بدر الفقہاء مفتی محمد اجمل قادری علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”ایک شخص صاحبِ استطاعت ہے اس کی بیوی اور اس کا لڑکا حج پڑھنے بھیجنے کے لیے تیار ہے لیکن وہ تیار نہیں ہوتا، اس لیے اس کو چھوڑ کر اس کی بیوی اور لڑکا حج پڑھنے جاسکتا ہے یا نہیں ؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”جب ان ماں اور بیٹے کے ذموں پر حج فرض ہے تو ان دونوں پر بغیر اس کی اجازت  کے بھی حج کے لیے جانا فرض ہے، پھر اگر امسال اس کے نہ جانے کی وجہ سے حج کے لیے نہیں جائیں گے تو تاخیر حج کے مرتکب ہوں گے۔(فتاوٰی اجملیہ، ج 02، ص 749، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم