مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-12685
تاریخ اجراء:28جمادی الثانی 1444ھ/21جنوری2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی کمپنی اپنے ملازم کو حج کروا
دے ، تو کیا اس ملازم کا فرض حج ادا ہوجائے گا جبکہ اس پر حج فرض ہی
نہ ہوا ہو؟ اور اگر حج فرض ہوچکا ہو، تو کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ملازم پر حج فرض ہوا ہو
یا نہ ہو ، بہر صورت کمپنی
کی طرف سے ملنے والی سہولت پر جب اس نے حج ادا کرلیا، تو اس کا
فرض حج ادا ہوجائے گابشرطیکہ وہ حج اس نے فرض حج یا مطلق حج کی
نیت سے ادا کیا ہو۔ہاں !اگر اس نے یہ حج خاص نفلی
حج کی نیت سے ادا کیا، تو اس صورت میں اس کا حجِ فرض ادا
نہ ہوگا،بلکہ حج فرض ہونے کی تمام
شرائط پائی جانے کی صورت میں اس پردوبارہ حج کرنا فرض
ہوگا۔
بحر الرائق و منحۃ الخالق میں ہے:”(الفقير اذا حج ) ای فانه يسقط عنه الفرض حتى لو
استغنى لا يجب عليه ان يحج “یعنی فقیر نے جب حج کر لیا، تو اس کا
فرض حج ادا ہوجائے گا، یہاں تک کہ اگر وہ غنی ہوگیا، تو اس پر
حج کرنا واجب نہیں ہوگا۔(منحۃ
الخالق علی البحر الرائق، جلد 2،صفحہ 546،مطبوعہ:کوئٹہ)
بدائع الصنائع میں ہے:”اذا حج بالسؤال من الناس يجوز ذلك عن حجة الاسلام حتى لو ايسر لا يلزمه حجة
اخرى“یعنی فقیر نے لوگوں سے مانگ کر حج کر
لیا، تو یہ حجۃ الاسلام(یعنی فرض حج) کو کافی
ہوگا یہاں تک کہ اگر وہ مالدار ہوگیا، تو اس پر دوسرا حج لازم
نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع، جلد3،صفحہ
45،بیروت)
فتاوی ھندیہ ومناسک ملا علی قاری
میں ہے:”(لو احرم بالحج) ای مطلقا(ولم ینو
فرضا ولا تطوعا فھو فرض)لان المطلق ینصرف الی الکامل۔۔۔۔(ولو
نوی)ای الحج(عن الغیر
او النذر او النفل )ای التطوع(کان)ای حجہ(عما
نوی)ای مما عین لہ(وان لم یحج للفرض)ای لحجۃ
الاسلام“یعنی اگر
کسی نے مطلقاً حج کی نیت سے احرام باندھا اور فرض یا نفل
کی نیت نہ کی، تو حجِ فرض ادا ہوگا، کیونکہ مطلق فردِ
کامل کی طرف منصرف ہوتا ہے۔۔۔۔ اور اگرکسی
دوسرے کی طرف سے حج کی نیت کی یا نذر یا نفل
کی نیت کی ،تو اس کا حج اسی کی طرف سے ہوگا ،جس کے
لئے اس نے معین کیا اگرچہ اس نے
ابھی تک فرض حج ادا نہ کیا ہو۔(مناسکِ ملا علی قاری، صفحہ 107۔108،مطبوعہ:کراچی)
مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین
قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”محکمہ حج کے تمام
اخراجات خود ادا کرے ، تو ایسی صورت میں ملازم کا حج کرنا اور
محکمہ کی طرف سے حج کروانا جائز ہے“(وقار الفتاوی، جلد2،صفحہ 442،بزمِ وقار الدین ، کراچی)
نفل کی نیت سے حج کرنے کی صورت میں جب
فرض حج ادا نہ ہو، تو شرائط پائے جانے کی صورت میں دوبارہ حج کرنا
لازم ہوگا۔اس کے متعلق رد المحتار میں ہے:”لو نواہ نفلا لزمہ الحج ثانیا“یعنی اگر اس نے نفلی
حج کی نیت کی، تو اس پر دوبارہ حج کرنا لازم ہوگا۔(رد المحتار، جلد 3،صفحہ 526،مطبوعہ:کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی
رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اگر فقیر ہو جب
بھی اسے حجِ فرض کی نیت کرنی چاہئے ، نفل کی
نیت کرے گا ، تو اس پر دوبارہ حج کرنا فرض ہوگا اور مطلق حج کی
نیت کی یعنی فرض یا
نفل کچھ معین نہ کیا ، تو فرض ادا ہوگیا“(بہارِ شریعت، جلد1،حصہ 6،صفحہ 1041،مکتبۃ
المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟