Na Samajh Bache Ko Masjid e Haram Aur Masjid e Nabawi Le Kar Jana

ناسمجھ بچے کو مسجدالحرام اورمسجد نبوی میں لے کرجانا

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2312

تاریخ اجراء: 16جمادی الاول1445 ھ/01دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا ایک سال کے بچے کو پیمپر(PAMPER) پہنا کر اپنے ساتھ عمرہ اور طواف کیلئے جاتے وقت مسجد الحرام  لے جاسکتے ہیں یا نہیں ؟یونہی مسجد نبوی شریف میں حاضری کیلئے جاتے وقت ساتھ لے جانا کیسا ہے؟اگر شرعاً یہ درست نہیں تو پھر ایسی صورت میں  والدین  عمرہ  کرنےا ور مدینہ شریف حاضری کیلئے  سفر کیسے کریں، جبکہ ان کے  پیچھے ،بچے کو کوئی سنبھالنے والا نہ ہو۔اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نا سمجھ بچوں کو مساجد میں لے جانے سے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ ایسے  ناسمجھ بچے جن سے نجاست کا غالب گمان  ہو، اُنہیں مسجد میں لانا مکروہِ تحریمی یعنی ناجائز و گناہ ہے اور ایسے  ناسمجھ بچے جن سے نجاست کا غالب گمان نہ ہو  ،بلکہ محض احتمال اور شک ہو تو اُنہیں  مسجد میں لانا مکروہِ تنزیہی ہے یعنی گناہ تو نہیں مگر بچنا بہتر ہے۔ پیمپر (PAMPER) پہنا کر لے جانے میں بھی یہی حکم ہے کہ اگر بچہ ایسا ہو کہ اُس سے پیمپر میں  نجاست  کردینے  کا غالب  گمان ہو تو اُسے مسجد میں لے جانا  مکروہ تحریمی ہے، اور اگر غالب گمان نہ ہوتو  مکروہ تنزیہی ہے۔

   اس تفصیل کی روشنی میں   صورت مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ ایک سال کے  بچے سے اگر نجاست کا ظنِ غالب ہو تو اب اُسے  طواف کیلئے جاتے وقت یا ویسے ہی مسجد الحرام میں  یا مسجد نبوی شریف میں حاضری کیلئے جاتے وقت اپنے ساتھ لے کر جانا شرعاً جائز نہیں ،جو لے کر جائے گا وہ شخص گنہگار ہوگا۔البتہ اگر بچے کی  عادت کو دیکھتے ہوئے ،جتنی دیر مسجدین کریمین میں ٹھہرنا ہے ،اس کے حساب سے اُتنی دیر میں بچے کے نجاست کردینے کا غالب گمان نہ ہو تو اب اگرچہ اِس صورت میں بچے کو مسجدین کریمین لے کر جانا،ناجائز و گناہ  نہ ہوگا،لیکن مکروہ اور ایک نامناسب فعل ضرور ہوگا کہ اولاً  اس صورت میں بھی نجاست کردینے کا شک ہے ،بالخصوص  اتنے  چھوٹے بچے سے  اس بات کا زیادہ خطرہ ہے کہ عام طور  پر اتنی عمر کے بچے  بار بار نجاست کردیتے ہیں ،پھر اتنے چھوٹے بچے کو مسجدین کریمین میں لانے میں اِن مساجد   کی بے ادبی کا بھی سخت اندیشہ  ہے کیونکہ  بچے کے رونے،چیخ و پکار کرنے سے  مسجدین کریمین کا تقدس پاما ل ہوگا اور ساتھ ہی  وہاں موجود افراد کی عبادات میں بھی  خلل پیدا ہوگا ، جس سے بچنا بہت ضروری ہے۔

   نیز ایسی صورت میں کہ جب پیچھے بچے کو کوئی سنبھالنے والا موجود نہ ہو اور والدین نفلی حج یا  عمرہ کیلئے جانا چا رہے ہوں  تو وہ بچے کو اپنے ساتھ سفر پر  تولے جائیں ،لیکن مسجدین کریمین میں اُسے ہرگز  نہ لائیں، بلکہ یہ طریقہ اختیار کرلیں کہ  والدین میں سے کوئی ایک بچےکو سنبھالے اور دوسرا حاضری کیلئے چلا جائے ،یا پھر اس صورت  میں پہلے انتظار کرلیں ،جب بچے کو  سنبھالنے کا انتظام ہوجائے تو اب حرمین طیبین کا  سفراختیار  کریں۔ خیال رہے ! اگر ماں باپ میں سے ہر ایک پر حج فرض ہو اور وہ  فرض حج کی ادائیگی کیلئے جانا چار ہے ہوں تو اب کسی صورت تاخیر کی اجازت نہیں  ہوگی بلکہ اگر بچے کو ساتھ لے جانا ہی ضروری ہو تو ساتھ لے جائیں اور اوپر بیان کردہ طریقے کے مطابق  مسجدین کریمین میں حاضری دیں۔

   مسجد وں کو بچوں سے  بچانے کے حوالے سے ،سنن ابن ماجہ کی حدیث مبارکہ ہے:’’عن واثلۃ  بن الاسقع،أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم  قال: جنبوا مساجدکم  صبیانکم  ومجانینکم   وشراءکم و بیعکم ،و خصوماتکم، ورفع اصواتکم،واقامۃ حدودکم  وسل سیوفکم‘‘ترجمہ: حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مسجدوں کو بچوں، پاگلوں، خریدو فروخت،لڑائی جھگڑوں، آوازیں بلند کرنے ، حدود قائم کرنے،اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ۔(سنن ابن ماجہ،کتاب المساجد،باب ما یکرہ فی المساجد، صفحہ 151،رقم الحدیث: 750،دار ابن کثیر)

   ناسمجھ بچوں کو مسجد میں لے جانے سے متعلق شرعی حکم  بیان کرتے ہوئے،علامہ علاء الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ در مختار میں فرماتے ہیں:’’یحرم ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسھم،والا فیکرہ‘‘ترجمہ :جب بچوں اور پاگلوں  سے نجاست کا غالب گمان ہو،تو انہیں مسجد میں لے جانا حرام ہے ورنہ مکروہ۔ (در مختار،جلد2،کتاب الصلاۃ،مطلب فی احکام المسجد،صفحہ،518 مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ  شامی رحمۃ اللہ علیہ  اس کے تحت رد المحتار میں فرماتے ہیں:’’والمراد بالحرمۃ کراھۃ التحریم لظنیۃ الدلیل۔۔۔قولہ : (والا فیکرہ( أی: تنزیھا‘‘ملتقطاً۔ترجمہ:حرام ہونے سے مراد مکروہ تحریمی ہے کیونکہ  دلیل(یعنی وہ حدیث مبارکہ جس میں بچوں اور پاگلوں کو مسجد سے بچانے کا حکم ہے) ظنی ہے۔۔۔اور ان کا  یہ قول  (کہ اگرنجاست کاغالب  گمان نہ ہو تو )مکروہ  ہے،اس سے مراد مکروہ تنزیہی ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد2،کتاب الصلاۃ، صفحہ،518 مطبوعہ کوئٹہ)

   امام اہلسنت سیدی اعلی  حضرت  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’(بچوں سے)اگر نجاست کا ظن غالب ہو تو اُنہیں مسجد میں آنے دینا حرام اور حالت محتمل و مشکوک ہو تو  مکروہ‘‘۔        (فتاوی رضویہ،جلد16، صفحہ 458،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم