Nafli Tawaf Beth Kar Karne Se Dam Ya Sadqa Lazim Aye Ga?

نفلی طواف بیٹھ کر کرنے سے دَم یا صدقہ لازم آئے گا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-2461

تاریخ اجراء:01ذو الحجۃ الحرام1444ھ/20جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ   فی زمانہ مسجد الحرام میں طواف اور سعی کے لیے کسی فرد کی مدد سے چلنے والی سادہ ویل چیئرز بھی ہوتی ہیں اور الیکٹرک ویل چیئرز (Electric Wheel Chairs)، الیکٹرک کاریں (Electric Cars)، الیکٹرک اسکوٹرز (Electric Scooters) موجود ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عذر و مجبوری کے بغیر صرف سُہولت و آسانی کے لیے یا تھکاوٹ سے بچنے کے لیے حج یا عمرے کا طواف ، یونہی نفل طواف پیدل چل کر نہ کرے، بلکہ ان گاڑیوں وغیرہ پر بیٹھ کر کرے ، تو اس کا ایسا کرنا کیسا ہے ؟ اور اس پر کوئی دم یا صدقہ لازم آئے گا یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

طواف سواری پر  کرنا کیسا ہے ؟

   پوچھی گئی صورت میں کسی صحیح عذر کے بغیر صرف سُہولت و آسانی کے لیے یا تھکاوٹ سے بچنے کے لیے حج یا عمرے کا طواف ، یونہی نفل طواف سادہ و الیکٹرک ویل چیئر (Electric Wheel Chair) ، الیکٹرک کار (Electric Car) یا الیکٹرک اسکوٹر (Electric Scooter) وغیرہ پر کرنا ، جائز نہیں ہے ، کیونکہ جسے کوئی عذر نہ ہو ، اس کے لیے طواف اپنے پاؤں سے پیدل چل کر کرنا واجب ہے ۔ عذر سے مراد ایسی کمزوری یا بڑھاپا یا درد یا بیماری ہونا ہے کہ جس کی وجہ سے چلنے کی طاقت نہ رہے اور جب کوئی ایسی مجبوری نہ ہو ، تو چاہے حج یا عمرے کا طواف ہو یا نفل طواف ہو ، بہرصورت اسے پیدل ادا کرنا ہی واجب ہوتا ہے ، لیکن اگر کوئی شخص صحیح عذر و مجبوری کے بغیر بیٹھ کر طواف کر لے ، تو بعض صورتوں میں دَم اور بعض صورتوں میں صدقہ لازم ہوتا ہے ، جس کی تفصیل نیچے آرہی ہے ۔

   پیدل طواف واجب ہونے کے متعلق ابو البقاء علامہ احمد مکی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:854ھ/1450ء) فرماتے ہیں : ”مِن واجبات الطواف المشی فیہ عند القدرۃ علیہ “ ترجمہ : طواف  کے واجبات میں سے ایک واجب قدرت ہونے کی صورت میں پیدل طواف کرنا ہے۔ (البحر العمیق، فصل الکلام فی السعی، جلد2، صفحہ 1143، مطبوعہ  مؤسسۃ الریَّان، بیروت)

   عذر نہ ہو ، تو سواری پر طواف ناجائز ہے ۔ چنانچہ لباب المناسک اور اس کی شرح مسلک المتقسط کی فصل فی واجبات الطواف میں ہے :”(واجبات الطواف ۔۔۔ الرابع : المشی فیہ للقادر) ففی الفتح المشی واجب عندنا وعلی ھذا نصّ المشائخ و ھو کلام محمد و ۔۔۔ ینبغی فی النافلۃ أن یجب لأنہ إذا شرع فیہ وجب، فوجب المشی ۔۔۔ (محرماته : الطواف ۔۔۔ راكباً  ۔۔۔ بلا عذر ۔۔۔ ولو نفلا) ، ملخصا “ ترجمہ : طواف کے واجبات میں سے چوتھا واجب طاقت رکھنے والے کے لیے پیدل چلنا ہے ۔ فتح القدیر میں ہے کہ ہمارے نزدیک پیدل چلنا واجب ہے اور اسی کی مشائخِ  کرام نے تصریح فرمائی ہے اور یہی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ہے اور نفلی طواف میں بھی پیدل چلنا واجب ہونا چاہئے کیونکہ جب نفلی طواف شروع کر دیا ، تو (اسے پورا کرنا) واجب ہو گیا ، لہٰذا پیدل چلنا واجب ہو گیا ۔ طواف کے حرام کاموں میں سےکسی مجبوری کے بغیر سوار ہو کر طواف کرنا ہے، اگرچہ نفل طواف ہو۔(المسلک المتقسط علی لباب المناسک،صفحہ167،168،182 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) فرماتے ہیں : ”طواف اگرچہ نفل ہو ، اُس میں یہ باتیں حرام ہیں : ۔۔۔بے مجبوری سُواری یا کسی کی گود میں یا کندھوں پر طواف کرنا ۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد10،صفحہ744،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   عذر و مجبوری میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں ، اس کے متعلق لباب المناسک اور اس کی شرح مسلک المتقسط میں ہے : ”(بعذر کمرض) ومنہ الاغماء والجنون (او کِبر) ای بحیث یضعف عن المشی فیہ “ ترجمہ : عذر کی وجہ سے جیسا کہ بیماری اور  بے ہوشی اور جنون (دیوانگی/ پاگل پن) بھی اسی (یعنی بیماری) میں شامل ہیں اور ایسا بڑھاپا ، جس کی وجہ سے چلنے کی طاقت نہ رہے ۔(المسلک المتقسط علی لباب المناسک،صفحہ385 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

اگر کوئی بلا عذر بیٹھ کر طواف کر لے ،تو حکم شرعی کیا ہے؟

   اگر عذرِ شرعی کے سبب سوار ہو کر طواف کیا جائے، تو شرعاً کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ ہماری شریعت اِس کی اجازت دیتی ہے، لیکن اگر بلاعذر سوار ہو کر طواف کیا، تو دو صورتیں ہیں:

    (1) جب تک مکہ مکرمہ میں ہے ، اُس دوران سوار ہو کر کیے گئے طواف کا اعادہ یعنی اسے پیدل چل کر دوبارہ ادا کرنا لازم ہے ۔

    (2) اگر اعادہ کیے بغیر وطن واپس آ جائیں ، تو سوار ہو کر کیے گئے فرض وواجب طواف  کے بدلے میں دَم ، جبکہ نفل طواف میں ہر چکر کے بدلے میں ایک ایک صدقۂ فطر یعنی سات چکروں کے بدلے میں سات صدقۂ فطر لازم ہوں گے ۔ یونہی اگر ایک سے زیادہ بار کے طواف میں یہ غلطی کی ، تو ہر بار کے بدلے میں الگ الگ دم یا صدقے لازم ہوں گے۔ البتہ اگر کفارہ یعنی دَم اور صدقے دینے کی بجائے اُسی سال یا بعد میں دوبارہ مکہ شریف حاضر ہو کر ایسے طواف ،اعادے یعنی لَوٹانے کی نیت سے پیدل چل کر دوبارہ کر لیے جائیں ، تو پہلے لازم ہونے والا کفارہ یعنی دم اور صدقے معاف ہو جاتے ہیں ، اگرچہ بہتر یہ ہے کہ واپس جا کر اعادہ کرنے کی بجائے لازم ہونے والا کفارہ ہی ادا کر دیا جائے ۔

   فرض یا واجب طواف سواری پر کیا ، تو اس کے حکم کے متعلق شمس الائمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:’’إن طاف راكبا أو محمولا فإن كان لعذر من مرض أو كبر لم يلزمه شيء، وإن كان لغير عذر أعاده ما دام بمكة فإن رجع إلى أهله فعليه الدم عندنا‘‘ترجمہ:اگر کسی نے عذرِ شرعی مثلاً: مرض یا بڑھاپے کے سبب سواری یا کسی کے کندھوں پر بیٹھ کر طواف کیا، تو اُس پر کچھ لازم نہیں،  لیکن اگر بلا عذر ایسا کیا، تو جب تک مکہ میں ہے، اُس طواف کا اعادہ کرے اور اگر اپنے وطن لوٹ آیا ،تو ہمارے نزدیک اُس پر دم کی ادائیگی لازم ہے۔ (المبسوط، جلد4، صفحہ45، مطبوعہ دارالمعرفہ، بیروت، لبنان)

   فتاویٰ عالمگیری میں اِس مسئلہ کو طواف اور سعی کی مشترکہ صورت بنا کر یوں بیان کیا گیا:’’ لو طاف راكبا أو محمولا أو سعى بين الصفا والمروة راكبا أو محمولا إن كان ذلك من عذر يجوز ولا يلزمه شيء، وإن كان من غير عذر فما دام بمكة فإنه يعيد، وإذا رجع إلى أهله فإنه يريق لذلك دما عندنا كذا في المحيط‘‘ترجمہ:اگر کسی نے طواف یا صفا مروہ کی سَعْی ،  سوار ہو کر یا کسی کے کندھوں یا ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے  کی، (تو اِس کی دو صورتیں ہیں، پہلی یہ کہ) اگر ایسا کرنا کسی عذر کے سبب تھا ،تو جائز ہے اور مُحْرِم پر کچھ واجب نہیں، لیکن اگر بلاعذر ایسا کیا،  تو جب تک وہ مکہ میں ہے، سَعْی یا طواف دوبارہ کرے اور اگر اپنے گھر واپس آ  گیا، تو  ہم احناف کے نزدیک حکم یہ ہےکہ دَم اد اکرے۔(الفتاوى الھندیہ، كتاب المناسک، جلد1،صفحہ247،مطبوعہ کوئٹہ)

   نفل طواف سواری پر کیا ، تو کفارے میں صدقہ لازم ہونے کے متعلق علامہ ابو منصور محمد بن مکرم کرمانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:597ھ/1200ء) فرماتے ہیں : ”من طاف تطوعاً علی شیء من ھذہ الوجوہ فاحبّ إلی أن یعید إن کان بمکۃ لإمکان الجبر بجنسہ ، و إن کان رجع إلی أھلہ فعلیہ صدقۃ جبراً لما دخل فیہ من النقصان “ ترجمہ : جس نے نفلی طواف ان وجوہات میں سے کسی وجہ کے مطابق (یعنی واجبات میں سے کسی واجب کو ترک کرتے ہوئے) کیا ، تو میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ اگر وہ مکہ میں ہے ، تو (اس طواف کا) اعادہ کر لے، کیونکہ نقصان کو اُس کی جنس کے ساتھ پورا کرنا،ممکن ہے اور اگر وہ اپنے وطن واپس جا چکا ہو، تو اُس (طواف) میں داخل ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے اُس پر صدقہ لازم ہو گا ۔ (المسالک فی المناسک، فصل فی کفارۃ الجنایۃ فی الطواف، ج2 ، ص786 ، مطبوعہ دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت)

   فتاوی حج و عمرہ میں ہے : ”اعادہ واجب ہونے کی صورت میں اعادہ ہی ضروری ہو گا ، ہاں اگر کسی وجہ سے اعادہ نہ کر سکا اور چلا گیا ، تو فرض اور واجب طواف میں دَم اور نفلی طواف میں صدقہ لازم آئے گا۔“(فتاوی حج و عمرہ ، حصہ9 ، ص68 ، مطبوعہ جمعیت اشاعت اھلسنت ، پاکستان)

   اگر طواف یا سعی میں کسی غلطی کی وجہ سے دم یا صدقہ لازم ہو جائے ، تو اس طواف و سعی کا اعادہ یعنی اسے دوبارہ درست طریقے سے ادا کر لینے سے کفارہ معاف ہو جاتا ہے اور اگر اعادہ کیے بغیر اپنے وطن واپس چلے جائیں ، تو واپس آ کر اعادہ کرنا بھی جائز ہے ، لیکن کفارہ دینا افضل ہے ۔ چنانچہ نور الدین علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ/1605ء) فرماتے  ہیں:(لو طاف فرضا أو نفلا علی وجہ يوجب النقصان فعليه الجزاء) أي دما أو صدقة (وإن أعاده سقط عنه الجزاء في الوجوه كلها والإعادة أفضل) أي ما دام بمكة (من أداء الجزاء) لأن جبر الشيء بجنسه أولى (ولو رجع إلى أهله) أي ولم يعده (فعليه العود أو بعث الجزاء) وهو أفضل من عوده ۔۔۔ (ولو سعی کلہ او اکثرہ راکبا او محمولا بلا عذر فعلیہ دم ۔۔۔ وان سعی اقلہ راکبا) وکذا محمولا (بلا عذر فعلیہ صدقۃ۔۔۔ واذا اعادہ سقط) ، ملخصا “ ترجمہ : اگر فرض یا نفل طواف اس طرح کیا کہ جس سے (اس کے واجبات میں) کوتاہی لازم آتی ہو ، تو اس پر جزا یعنی دم یا صدقہ لازم ہے اور اگر اس کا اعادہ کر لے ، تو تمام صورتوں میں اس سے جزا معاف ہو جائے گی اور جب تک مکہ شریف میں ہو ، جزا دینے سے اعادہ افضل ہے ،کیونکہ چیز کا نقصان اسی کی جنس سے پورا کرنا بہتر ہوتا ہے اور اگر اعادہ کیے بغیر اپنے وطن چلا گیا ، تو اس پر واپس جا کر اعادہ کرنا یا جزا بھیج دینا لازم ہے اور یہ (جزا بھیجنا) واپس جانے سے افضل ہے ۔۔۔ اور اگر مکمل یا اکثر سعی کسی مجبوری کے بغیر سواری پر یا کسی کے کندھوں پر کی ، تو اس پر دم لازم ہے اور اگر چار سے کم چکر کسی مجبوری کے بغیر سواری پر اور اسی طرح کسی کے کندھوں پر کیے ، تو اس پر صدقہ لازم ہے اور اگر اس کا اعادہ کر لیا ، تو معاف ہو جائے گا ۔(المسلک المتقسط علی لباب المناسک،ص392۔393 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) فرماتے ہیں : ”طوافِ فرض کُل یا اکثر بلا عُذر چل کر نہ کیا، بلکہ سواری پر یا گود میں یا گھسٹ کر یا بے سترکیا ۔۔۔ تو ان سب صورتوں میں دَم دے اور صحیح طور پر اعادہ کر لیا ، تو دَم ساقط اور بغیر اعادہ کیے چلا آیا ، تو بکری یا اُس کی قیمت بھیج دے کہ حرم میں ذبح کر دی جائے ، واپس آنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ سعی کے چار پھیرے یا زیادہ بلا عذر چھوڑدیے یا سواری پر کیے ، تو دَم دے اور حج ہوگیا اور چار سے کم میں ہر پھیرے کے بدلے صدقہ اور اعادہ کر لیا ، تو دَم و صدقہ ساقط اور عذر کے سبب ایسا ہوا ، تو معاف ہے ۔ ملخصا “(بھار شریعت ، حصہ6 ، ج1 ، ص1176۔1177 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

دم اور صدقے کی تفصیلات؟

   ایک دَم سے مراد ایک بکرا یا بکری قربان کرنا یا گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ قربان کرنا ہے اور اس قربانی کا حدودِ حرم میں ہونا ضروری ہے ، چاہے خود کریں یا وہاں کسی کے ذریعے کروا دیں ، جبکہ صدقے سے مراد صدقۂ فطر ہے اور طواف و سعی میں غلطی کرنے سے جب صدقۂ فطر لازم ہو ، تو وہ ہر چکر کے بدلے میں الگ الگ واجب ہوتا ہے اور اس کی مقدار آدھا صاع یعنی دو کلو میں 80 گرام کم (تقریبا 1920گرام) گندم،یا ایک صاع یعنی چار کلو میں 160 گرام کم (تقریبا 3840گرام) کھجور یا جَو ہے۔صدقے میں ان چیزوں کی قیمت بھی دی جا سکتی ہے اور گندم یا جَو کا آٹا یا ستو بھی دے سکتے ہیں ۔ نیز صدقہ اپنے شہر کے شرعی فقیر (یعنی جسے زکوٰۃ دینا ، جائز ہے ، ایسے شخص) کو بھی دے سکتے ہیں ، لیکن حرم شریف میں موجود شرعی فقیر کو دینا افضل ہے اور صدقہ جہاں بھی دے ، بہر حال قیمت اس مقام کے حساب سے دینی ہو گی ، جہاں صدقہ ادا کرنے والا ادائیگی کے وقت خود موجود ہو ۔

   ایک دَم سے مراد ایک بکرا یا بکری قربان کرنا یا گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ قربان کرنا ہے ۔ چنانچہ رد المحتار میں ہے : ”قولہ (دم) فسرہ ابن ملک بالشاۃ ۔۔۔ و فی اضحیۃ القھستانی : لو ذبح سبعۃٌ ۔۔۔ فانہ یصح فی ظاھر الاصول ، ملخصا “ ترجمہ : دم کی تعریف ابنِ ملک نے بکری سے کی ہے اور قہستانی کی کتاب الاضحیہ میں ہے کہ اگر ساتواں حصہ ذبح کیا ، تو یہ بھی ظاہر اصول کے مطابق صحیح ہو گا ۔(رد المحتار علی الدر المختار ، ج3 ، ص651 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   دم حدودِ حرم میں دینا ضروری ہے ۔ چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ”(ذبح) فی الحرم “ ترجمہ : قربانی حرم میں کرے ۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے : ”فلو ذبح فی غیرہ لم یجز “ ترجمہ : تو اگر اس نے حرم کے علاوہ کسی اور جگہ قربانی کر دی ، تو وہ اسے کافی نہیں ہو گی ۔(رد المحتار علی الدر المختار ، ج3 ، ص672 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدقے سے مراد صدقۂ فطر ہے اور صدقہ اپنے شہر کے شرعی فقیر کو بھی دے سکتے ہیں ، لیکن حرم شریف میں موجود شرعی فقیر کو دینا افضل ہے ۔ چنانچہ تنویر الابصار و درِ مختار میں ہے : ”(تصدق بنصف صاع من بر) كالفطرة ۔۔۔ أين شاء ، ملخصا “ ترجمہ : صدقۂ فطر کی طرح آدھا صاع گندم صدقہ کرے ، جہاں چاہے ۔

   رد المحتار میں ہے : ”(قوله أين شاء) أي في غير الحرم أو فيه ولو على غير أهله لإطلاق النص، بخلاف الذبح والتصدق على فقراء مكة أفضل ، بحر “ ترجمہ : شارح رحمۃ اللہ علیہ کا قول (جہاں چاہے) یعنی حرم کے علاوہ یا حرم میں ، اگرچہ حرم کے فقیر کے علاوہ کسی دوسرے فقیر پر کیونکہ اس بارے میں نص مطلق ہے ، جانور ذبح کرنے کے بر خلاف اور صدقہ مکۃ المکرمہ کے فقیروں پر کرنا افضل ہے ۔ بحر ۔(رد المحتار علی الدر المختار ، ج3 ، ص671۔672 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   طواف و سعی میں غلطی کرنے سے جب صدقۂ فطر لازم ہو ، تو وہ ہر چکر کے بدلے میں الگ الگ واجب ہوتا ہے۔چنانچہ المسلک المتقسط علی لباب المناسک ، فصل فی احکام الصدقہ میں ہے : ”(کل صدقۃ تجب فی الطواف فھی لکل شوط نصف صاع) ۔۔۔ وکذا بترک شوط من السعی صدقۃ ، ملخصا “ ترجمہ : طواف میں واجب ہونے والے ہر صدقہ (کی مقدار) ہر چکر کے بدلے میں آدھا صاع (گندم) ہے اور سعی کا کوئی چکر چھوڑ دینے کے بدلے میں بھی اِسی طرح صدقہ ہے ۔ (المسلک المتقسط علی لباب المناسک،ص440 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   اسی میں فصل فی الجنایۃ فی السعی میں ہے : ”(ان سعی اقلہ راکبا) وکذا محمولا (بلا عذر فعلیہ صدقۃ) ای لکل شوط علی ما فی منسک ابی النجا “ ترجمہ : اگر (سعی کے) چار سے کم چکر کسی مجبوری کے بغیر سواری پر اور اسی طرح کسی کے کندھوں پر کیے ، تو اس پر ایک صدقہ لازم ہو گا یعنی ہر چکر کے بدلے میں (الگ الگ) ، جیسا کہ ابو نجا کی کتاب المنسک میں ہے ۔(المسلک المتقسط علی لباب المناسک،ص393 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   صدقۂ فطر کی مقدار سے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ”ھی نصف صاعٍ من بر او صاعٍ من شعیر او تمر و دقیق الحنطۃ و الشعیر و سویقھما مثلھما “ ترجمہ : یہ گندم سے آدھا صاع یا جو یا کھجور سے ایک صاع ہے اور گندم اور جو کا آٹا اور ان کی مثل دونوں کا ستو ۔ (الفتاوی العالمگیریۃ،ج1،ص210،مطبوعہ كراچی)

   صدقے میں ان چیزوں کی قیمت دینا بھی جائز ہے ۔ چنانچہ لباب المناسک ، فصل فی احکام الصدقۃ میں صدقے کی مقدار بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ”و یجوز اداء القیمۃ “ ترجمہ : اور (صدقے میں ان چیزوں کی) قیمت ادا کرنا بھی جائز ہے ۔ (المسلک المتقسط علی لباب المناسک،ص438 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   حالتِ احرام میں لازم آنے والا صدقہ جہاں بھی دے ، بہر حال قیمت اس مقام کے حساب سے دینی ہو گی ، جہاں صدقہ ادا کرنے والا ادائیگی کے وقت خود موجود ہو ۔ چنانچہ فتاوی فقیہِ ملت میں ہے : ”ایامِ حج میں جو صدقہ واجب ہوتا ہے ، اس میں اس مقام کی قیمت معتبر ہو گی ، جہاں حاجی صدقہ دے ۔“(فتاوی فقیہ ملت ، ج1 ، ص359 ، مطبوعہ شبیر برادرز ، لاھور)

   نوٹ:یہی فتوی پہلے وائرل کیا گیا تھا اور اس میں حکم یہ لکھا گیا تھا کہ نفلی طواف بغیر عذر کے سواری پر کرنے کی صورت میں دَم لازم آئے گا ، لیکن پھر مزید تحقیق کرنے پر یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ نفلی طواف میں یہ حکم نہیں ہے اور اس صورت میں دَم لازم نہیں آئے گا ، بلکہ ہر چکر کے بدلے میں الگ الگ صدقہ لازم آئے گا ، لہٰذا اُس پہلے والے فتوے سے ہم رجوع کرتے ہیں ۔ اللہ کریم ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے ۔آمین بجاہ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلی اللہ علیہ و الہ و سلم

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم