Nani Ki Sagi Behen Ke Sath Umrah Par Jana Kaisa ?

نانی کی سگی بہن کے ساتھ عمرے پر جانا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12572

تاریخ اجراء: 04جمادی الاولیٰ1444 ھ/29نومبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی  نانی کی سگی بہن زید کے  ساتھ عمرے پر جاسکتی ہے؟ اس میں کوئی حرج والی بات تو نہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زید کی نانی کی سگی بہن زید کی محرمہ ہے کہ وہ زید کے اصلِ بعید(یعنی پرنانا)کی فرعِ قریب( یعنی بیٹی)ہے، اور فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق  اصلِ بعید کی فرعِ قریب بھی محرمات میں داخل ہے۔

    لہذا  پوچھی گئی صورت میں اگر زید کے ساتھ سفر کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو تو وہ عورت زید کے ساتھ عمرے پر جاسکتی ہے۔

   ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿حُرِّمَتْ  عَلَیْكُمْ  اُمَّهٰتُكُمْ  وَ  بَنٰتُكُمْ  وَ  اَخَوٰتُكُمْ  وَ  عَمّٰتُكُمْ  وَ  خٰلٰتُكُمْترجمہ کنزالایمان:حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں۔(القرآن الکریم،پارہ04،سورۃ النساء،آیت:23)

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ نور  العرفان میں ہے:”قاعدہ یہ ہے کہ اپنے سارے فروع حرام اپنے سارے اصول  حرام اصولِ قریبہ کے  سارے فروع حرام اور اصولِ بعیدہ کے قریبہ فروع حرام، فروعِ بعیدہ حلال۔“(تفسیرِ نور العرفان، صفحہ 128، مطبوعہ  پیر بھائی کمپنی اردو بازار لاہور، ملتقطاً)

   فتاویٰ رضویہ میں ہے:”جزئیت کے بارے میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اپنی فرع اور اپنی اصل کتنی بعید ہو مطلقاً حرام ہے، اور اپنی اصل قریب کی فرع اگرچہ بعیدہو حرام ہے، اور اپنی اصل بعید کی فرع بعید حلال، اپنی فرع جیسے بیٹی پوتی نواسی کتنی ہی دور ہو اور اصل ماں دادی نانی کتنی ہی بلند ہو اور اصل قریب کی فرع یعنی اپنی ماں اور باپ کی اولاد یا اولادکی اولاد کتنی ہی بعید ہو اوراصل بعید کی فرع قریب جیسے اپنے دادا، پردادا، نانا ، دادی، پردادی، نانی، پرنانی کی بیٹیاں یہ سب حرام ہیں، اور اصل بعید کی فرع بعید جیسے انہی اشخاص مذکورہ آخر کی پوتیاں نواسیاں جو اپنی اصل قریب کی نوع نہ ہوں حلال ہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج11، ص516، رضافاؤنڈیشن لاہور)

   شرعی سفر کے لیے عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔  جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:” عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اُس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے، خواہ وہ عورت جوان ہو یا بوڑھیا ۔۔۔۔۔۔ محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کے لیے  اُ س عورت کا نکاح حرام ہے، خواہ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو، جیسے باپ، بیٹا، بھائی وغیرہ یا دُودھ کے رشتہ سے نکاح کی حرمت ہو، جیسے رضا عی بھائی، باپ، بیٹا وغیرہ یا سُسرالی رشتہ سے حُرمت آئی، جیسے خُسر، شوہر کا بیٹا وغیرہ۔ شوہر یا محرم جس کے ساتھ سفر کرسکتی ہے اُس کا عاقل بالغ غیر فاسق ہونا شرط ہے۔ مجنون یا نا بالغ یا فاسق کے ساتھ نہیں۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 1044، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم