Tawaf e Qudoom Ka Hukum Aur Haiz Ki Wajah Se Ye Tawaf Na Kiya To ?

طواف قدوم کا حکم اور حیض کی وجہ سے یہ طواف نہ کیا تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2720

تاریخ اجراء:11ذوالقعدۃ الحرام1445 ھ/20مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا حج قران اور حج افراد کرنے والے کیلئے طواف قدوم کرنا ضروری ہے؟اگر کوئی  عورت   حج  افراد کی نیت سے مکہ مکرمہ جائے اور شرعی عذر(یعنی حیض ) کی وجہ سے طواف قدوم نہ کر سکے اور حج کیلئے روانہ ہوجائے  تو کیا  وہ گنہگار ہوگی؟اور کیا طواف قدوم نہ کرنے کے سبب اس پر   کوئی کفارہ بھی لازم ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حج قران اور حج افراد کرنے والے آ فاقی  حاجی کیلئے طوافِ قدوم سنتِ مؤکدہ ہے،جسے کوئی عذر نہ ہو اُسے  اس کی ادائیگی کا  ضرور اہتمام کرنا چاہئے۔ بغیر کسی عذر کے طوافِ قدوم  ترک کردینا،اِساءت یعنی بُرا ہے، ایسا  شخص  شرعاً قابل عتاب  اور مستحق ملامت ہے،البتہ   اگر کسی  عذر کی وجہ سے طواف قدوم کا  ترک کیا  ہو،تو یہ  اِساءت بھی  نہیں  ہوگا۔لہذا    اگر   حج افراد کرنے  والی کوئی   خاتون ،    ماہواری کے عذر کی وجہ سے  طواف قدوم  نہ کرسکی   اور  حج کیلئے  روانہ ہوگئی ، تو نہ وہ گنہگار ہوگی اور نہ  مرتکب اِساءت ہوگی۔نیز     طواف قدوم   نہ کرنے  کے سبب اس پر   کوئی کفارہ   وغیرہ بھی لازم نہیں ہوگا،کیونکہ سنت کے ترک سے کفارہ   لازم نہیں آتا۔

   قارن  و مُفرد آفاقی  کیلئے طوافِ قدوم سنت ہے،جیسا کہ لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:’’(طواف القدوم وھو سنۃ) أی علی ما فی عامۃ الکتب المعتمدۃ(للآفاقی المفرد بالحج والقارن)‘ ‘ترجمہ: طواف قدوم ،حج افراد  اور  حج قران کرنے والے آفاقی کیلئے  عام کتب معتمدہ کے مطابق ، سنت ہے۔ (لباب المناسک مع شرحہ،باب انواع الاطوفۃ،صفحہ198،199،مطبوعہ مکۃ المکرمۃ)

   طوافِ  قدوم سنتِ مؤکدہ ہے،بلا  عذر اس کو ترک کرنے والا  مُرتکب اِساءت ہے،چنانچہ  علامہ  ابو البقاء  محمد بن   احمد ضیاء مکی حنفی رحمۃ اللہ علیہ البحر العمیق میں لکھتے ہیں:’’طواف القدوم۔۔۔ھو سنۃ مؤکدۃ ولیس بواجب، حتی لو ترکہ لم یلزمہ شئ،ولکن یکون مسیئا‘‘ترجمہ:طواف قدوم  سنت مؤکدہ ہے،واجب نہیں ،یہاں تک کہ اگر کسی نےطواف قدوم  کو ترک کردیا،تو اس پر کچھ بھی  لازم نہیں ہوگا،لیکن(بغیر عذر سنت مؤکدہ کو ترک کرنے کی وجہ سے ) وہ مُرتکب اِساءت ہوگا۔(البحر العمیق،جلد2،الباب العاشر فی دخول مکۃ،صفحہ1104،مؤسسۃ الریان)

   تبیین  الحقائق میں ہے:’’ طواف القدوم سنة فتركه لا يوجب الجابر ‘‘ترجمہ: طواف قدوم سنت ہے،لہذا اس کا ترک  کسی جابر(یعنی  کفارے)کو لازم نہیں کرے گا۔(تبیین الحقائق،جلد2،باب القران،صفحہ43، مطبوعہ قاهرة)

   بہار شریعت میں ہے” طوافِ قدوم ترک کیا  تو کفارہ نہیں مگر بُرا کیا۔‘‘      (بھار شریعت،ج 1،حصہ 6،ص 1176،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم