Tawaf e Wida Kiye Baghair Taif Chale Gaye To Kya Hukum Hai?

طوافِ وداع کیے بغیر طائف چلے گئے، تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8325

تاریخ اجراء:01ذیقعدۃ الحرام 1444 ھ/ 22 مئی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ ایک شخص نے حج کے افعال مکمل کیے ، لیکن ابھی طوافِ وداع نہیں کیا اور وہ زیارات کے لیے طائف چلا گیا ، اس کے لیے کیا حکم  ہے  ، کیا دم یا صدقہ لازم ہوگا ؟ اور اگر وہ  عمرے کا احرام باندھ کر مکہ شریف واپس آ جائے اور عمرہ کر لے ، تو کیا یہ کفارہ ساقط ہو جائے گا یا بہر صورت دینا ہی ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفسِ مسئلہ جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیجیے  کہ "طوافِ وداع " اس طواف کو کہتے ہیں جو اپنے وطن واپسی کے وقت بیت اللہ شریف سے رخصت  ہونے کے لیے کیا جاتا ہے، یہ آفاقی یعنی میقات کی حدود سے باہر رہنے والے لوگوں پر منٰی سے واپس آنے کے بعد میقات سے باہر جانے سے پہلے کرنا واجب ہے  ، البتہ طوافِ وداع کا وقت طوافِ زیارت کے بعد شروع ہو جاتا ہے  ، طوافِ زیارت کے بعد کوئی بھی نفلی طواف کر لیا ، تو  وہ طوافِ وداع کے قائم مقام ہوجائے گا ، جب کہ وطن واپسی کا  پختہ ارادہ ہو ، لہٰذا جو حاجی طوافِ زیارت کے بعد نفلی طواف کرلے اس کا طوافِ وداع ہو جائے گا ، اس کے ذمہ طوافِ وداع واجب نہیں رہے گا، ہاں مستحب اور افضل یہ ہے کہ عین  واپسی کے ارادے کے وقت باقاعدہ مستقل طوافِ وداع کی نیت سے یہ  طواف کیا جائے،تاکہ آخری ملاقات بیت اللہ شریف کے ساتھ ہو۔

   تمہیدی گفتگو سمجھنے کے بعد نفسِ مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ آفاقی پر میقات سے باہر جانے سے پہلے طوافِ وداع کرنا واجب ہے ، اگر کوئی شخص طوافِ وداع کرنےسے پہلے طائف وغیرہ زیارات کے لیے یا وطن واپسی کی غرض سے چلا گیا ، تو جب تک میقات کی حدود سے باہر  نہ گیا ہو، واپس آ جائے  اور  اگر میقات کی حدود سے نکل گیا ، تو اب اختیار ہے ،   خواہ عمرے کا احرام باندھ کر واپس آ جائے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد طوافِ وداع کر لے  ، یا واپس نہ آئے اور دم ادا کرے ۔  اگر  عمرے کا احرام باندھ کر واپس آ گیا اور عمرہ کی ادائیگی کے بعد طوافِ وداع کر لیا ، تو دم ساقط ہو جائے گا ۔

   نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے طوافِ وداع کا حکم ارشاد فرمایا ، چنانچہ صحیح مسلم ، مسندِ احمد ،  ابو داؤد وغیرہا کتبِ احادیث میں ہے ، واللفظ للآخر :’’عن ابن عباس قال: كان الناس ينصرفون في كل وجه، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لا ينفرن أحد ‌حتى ‌يكون ‌آخر ‌عهده الطواف بالبيت ترجمہ :  حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ ہر طرف سے ( بغیر طوافِ وداع کیے ) چل دیتے تھے ،تب رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی واپس نہ جائے ، یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اﷲ   کا طواف    ہو ۔( سنن ابو داؤد ، کتاب المناسک ، باب الوداع ، جلد 1 ، صفحہ 289، مطبوعہ لاھور )

   مذکورہ بالا حدیثِ پاک کی شرح میں امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:676ھ /1277ء) لکھتے ہیں: فيه دلالة لمن قال بوجوب طواف الوداع وأنه إذا تركه لزمه دم وهو الصحيح في مذهبنا وبه قال أكثر العلماء منهم الحسن البصري والحكم وحماد والثوري وأبو حنيفة وأحمد وإسحاق وأبو ثور ترجمہ : اس حدیثِ پاک میں ان فقہائے کرام کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ طوافِ وداع واجب ہے ، اگر کسی نے ترک کر دیا ، تو دم لازم ہوگا ، یہی قول ہمارے مذہب کے مطابق درست ہے ، اکثر علما یہی فرماتے ہیں ، جن میں امام حسن بصری ، حکم ، حماد ، امام ثوری ، امامِ اعظم ، امام احمد ، اسحاق  اور ابو ثور  رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ وغیرہ شامل ہیں ۔ (المنهاج شرح  صحیح مسلم،باب وجوب طواف الوداع ،جلد9 ،صفحه 78،مطبوعه بیروت)

   مبسوطِ سرخسی ، بدائع الصنائع ، ہدایہ ، الاختیار  ، جوہرۃ النیّرہ ، بحرالرائق وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے،واللفظ للاوّل: اعلم بأن الطواف أربعة ثلاثة في الحج وواحد في العمرة... والطواف الثالث طواف الصدر، وهو واجب عندنا ترجمہ : جان لو کہ طواف چار ہیں ، تین حج میں اور ایک عمرہ میں ، تیسرا طواف، جسے طوافِ صدر ( اور وداع) کہتے ہیں ،یہ ہمارے نزدیک واجب ہے ۔( مبسوط ِسرخسی ، کتاب المناسک ، باب الطواف ،جلد  4 ، صفحہ 34 ، مطبوعہ دار المعرفہ ، بیروت )

   طوافِ وداع کے وقت کی تفصیل کے متعلق فتح القدیر ، ردالمحتار ، بحرالرائق  وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے،واللفظ للاوّ ل:’’والحاصل أن المستحب فيه أن يوقع عند إرادة السفر، وأما وقته على التعيين فأوله بعد طواف الزيارة إذا كان على عزم السفر ترجمہ :حاصل و خلاصہ یہ ہے کہ طوافِ وداع کا  مستحب وقت  خاص وہ موقع ہے ، جب وطن واپسی کا پختہ ارادہ بن جائے ، بہر حال اس کا وقت طوافِ زیارت کے بعد شروع ہو جاتا ہے ، جب کہ  وطن واپسی کا پختہ ارادہ ہو ۔( فتح القدیر  ،  کتاب الحج ، باب الاحرام ، جلد 2 ، صفحہ 503 ، مطبوعہ لبنان )

   طوافِ زیارت کے بعد وطن واپسی پر کوئی بھی نفل طواف کر لیا ، تو  طوافِ وداع  ادا ہو جائے گا ، خاص طوافِ وداع کی نیت ہونا ضروری نہیں ، اگرچہ بہتر یہ ہے کہ رخصت کے وقت باقاعدہ اس نیّت سے طواف  کرے،چنانچہ درِ مختار میں ہے : فلو طاف بعد إرادة السفر ونوى التطوع أجزأه عن الصدر ترجمہ : اگر کسی نے  ارادۂ سفر کے بعد کوئی نفل طواف کیا ، تو یہ طوافِ وداع کے لیے کافی ہے ۔( درمختار مع ردالمحتار ، کتاب الحج ، جلد 3 ، صفحہ 622 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   طوافِ وداع کیے بغیر طائف وغیرہ زیارات کے لیےیا وطن واپسی کی غرض سے چلے جانے والے شخص کے متعلق   فتح القدیر ، بدائع الصنائع ، ہدایہ ، الاختیار  ، جوہرۃ النیّرہ ، بحرالرائق وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے ، واللفظ للاوّل:’’ولو نفر ولم يطف يجب عليه أن يرجع فيطوفه مالم يجاوز المواقيت بغير إحرام جديد،فإن جاوزها لم يجب الرجوع عينا،بل إما أن يمضي وعليه دم،وإما أن يرجع فيرجع بإحرام جديد لأن الميقات لا يجاوز بلا إحرام فيحرم بعمرة، فإذا رجع ابتدأ بطواف العمرة ثم بطواف الصدر ولا شيء عليه لتأخيره وقالوا: الأولى أن لا يرجع ويريق دما لأنه أنفع للفقراء وأيسر عليه لما فيه من دفع ضرر التزام الاحرام ومشقة الطريق  ترجمہ:اور اگر کوئی طوافِ وداع کیے بغیر چلا گیا ، تو جب  تک میقات کی حدود سے نہ نکل گیا ہو ، اس پر واپس آ کر   دوبارہ سے احرام باندھے بغیر طواف کرناواجب ہے  اور  اگر میقات کی حدود سے نکل گیا ، تو واپس آنا ہی  ضروری نہیں  ، بلکہ اختیار ہے کہ چلا جائے اور دم ادا کرے یا  ( عمرے کا ) احرام باند ھ کر واپس آجائے  ، کیونکہ بغیر احرام کے میقات میں داخل نہیں ہو سکتے ، تو وہ عمرے کا احرام باندھے اور مکہ شریف پہنچ کر  پہلے  عمرہ کرے ، پھر طوافِ وداع کرے  اور اس تاخیر کی وجہ سے اس شخص پر کچھ بھی لازم نہیں۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں:زیادہ بہتر یہ ہے کہ واپس نہ لوٹے  ، بلکہ دم ادا کرے ، اس لیے کہ اس میں فقراء  کا زیادہ فائدہ ہے اور اس کے لیے بھی آسان ہے کہ اس کو واپس آ کر احرام باندھنے اور راستے کی مشقت نہیں کرنی پڑے گی  ۔( فتح القدیر  ،  کتاب الحج ، باب الاحرام ، جلد 2 ، صفحہ 503 ، مطبوعہ لبنان )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:جو بغیر طوافِ رخصت کے چلا گیا، تو جب تک میقات سے باہر نہ ہوا، واپس آئے اور میقات سے باہر ہونے کے بعد یاد آیا ،تو واپس ہونا ضرور نہیں، بلکہ دَم دے دے  اور اگر واپس ہو ،تو عمرہ کا احرام باندھ کر واپس ہو اور عمرہ سے فارغ ہوکر طوافِ رخصت بجا لائے اور اس صورت میں دَم واجب نہ ہوگا۔ (بھارِ شریعت ، حج کا بیان ، جلد 1 ، صفحہ 1152 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم