Umrah Ke Ihram Ki Niyat Karne Se Pehle Waise He Chadar Odhna

عمرہ کے احرام کی نیت کرنے سے پہلے ویسے ہی چادریں اوڑھنا

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2773

تاریخ اجراء: 29ذیقعدۃالحرام1445 ھ/07جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہم مکہ کے رہائشی ہیں ، ہمارے ہاں مختلف میقات ہیں مثلا مسجد عائشہ یا جعرانہ وغیرہ ، اب ہم نے عمرہ کرنا ہے تو رہائش سے ہی احرام کی چادر اوڑھ لی لیکن احرام کی نیت نہیں ہے نہ ہی تلبیہ کہا ہے بلکہ مسجد عائشہ جا کر احرام کی نیت کرنی ہے ، بالفرض کسی وجہ سے ہم مسجد عائشہ جانے سے پہلے وہ چادریں اتار دیں تو کیا اس سے بھی دم لازم ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی نہیں !احرام کی نیت  کے بغیر محض دو چادریں اوڑھ لینے سے احرام نہیں ہو جاتا ، یونہی  نیت کر لینے سے پہلے اگر سفید چادریں اوڑھ کر اُتار  دیں اور سلا لباس پہن لیا تو ایسی صورت میں  کوئی  کفارہ ( دم وغیرہ )نہیں ہوگا کہ احرام ابھی ہوا ہی نہیں تھا ۔بلکہ احرام کی نیت کر لینے اورتلبیہ پڑھ لینے کے بعد بھی  چادریں  تبدیل کر سکتا ہے مگر اتار کر سلا ہوا لباس نہیں پہن سکتا ،  ہاں یہ ذہن میں رہے کہ احرام کی نیت کر لینے کے بعد چادریں اتار کر سلا لباس پہن لینا تویہ جرم ہوگا اورپھراس کے حساب سے کفارے کے  احکام ہوں گے۔

   حقیقۃً احرام  خاص حالت کا نام ہے ، نہ کہ احرام میں باندھی جانے والوں چادریں احرام ہیں ، ہاں مجازاً ان چادروں کو احرام کہا جاتاہے ، چنانچہ اِحرام  کی تعریف کے متعلق قاضی ابو الحسن على بن حسین السغدى حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 461ھ /1068ء)  لکھتے ہیں : اما الاحرام فھو التلبیۃ  مع وجود النیۃ ترجمہ : بہر حال احرام تو وہ  (حج یا عمرہ یا دونوں کی ) نیت کے ساتھ تلبیہ پڑھنے کو کہا جاتاہے ۔ (النتف فی الفتاوی ، کتاب المناسک ، فرائض الحج ، صفحہ 133 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   رفیق الحرمین  میں ہے: جب حج یا عمرہ یا دو نوں کی نیت کرکے تلبیہ پڑھتے ہیں،تو بعض حلال چیز یں بھی حرام ہوجاتی ہیں ، اس لئے اس کواحرام  کہتے ہیں ۔اور مجازاً ان بغیر سلی چادرو ں کو بھی احرام کہا جاتا ہے جن کو احرام کی حالت میں استعمال کیا جاتا ہے۔(رفیق الحرمین ، صفحہ 58 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )

      مفتی علی اصغر عطاری دامت برکاتہم العالیۃ اپنی مختصر و جامع تصنیف 27 واجبات حج میں لکھتے ہیں:’’صرف حج کی نیت کرنا یا صرف عمرے کی نیت کرنا یا حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرنا احرام میں داخل ہونا کہلاتا ہے ۔نیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تلبیہ بھی پڑھا جائے یا کم از کم جو کلمات تلبیہ کے قائم مقام ہیں وہ پڑھے جائیں۔جب نیت پائی گئی تو اب حالتِ احرام شروع ہوگئی اور احرام کی پابندیوں کا لحاظ کرنا لازم ہو گیا۔عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید احرام کی چادر پہننے کو حالت احرام کہتے ہیں اسی لئے وہ چادر تبدیل کرنے پربھی سوچ و بچا ر میں پڑتے ہیں کہ کہیں احرام نہ کھل جائے ۔یہ غلط فہمی مسائل کا ادراک نہ ہونے کی بنا پرہے حالت احرام دراصل ایک کیفیت کا نام ہے جس کا دار و مدار نیت اور تلبیہ کہنے پر ہے۔(27 واجبات حج،ص 191،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم