Umrah Ke Liye Qurandazi Me Jua Ki Sorat ?

عمرہ کے لیے قرعہ اندازی میں جوئے کی صورت

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: 7057 - PIN

تاریخ اجراء:       07ربیع الاول1444ھ04اکتوبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس  مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے، وہ ربیع الاول میں لوگوں سے فی کس ایک ہزار روپے جمع کرتی ہے، جو افراد رقم دیتے ہیں ،ان کا نام قرعہ اندازی میں شامل کیا جاتا ہے، پھر قرعہ اندازی میں جس ایک شخص کا نام نکلتا ہے، اسے عمرے پر بھیج دیا جاتا ہے اور بقیہ افراد کو کچھ نہیں ملتا، تو برائے کرم اس طریقہ کار کے متعلق شرعی رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عمرہ کرنا اور عمرہ کے لیے کسی کے ساتھ تعاون کرنا بلاشبہ نہایت عمدہ اور مستحسن عمل ہے، عمرہ کے فضائل سے احادیث طیبہ مالا مال ہیں ، یونہی نیکی کے کام میں تعاون کرنے کی ترغیب قرآن کریم میں موجود ہے، لیکن یاد رہے کہ ہم نیکی کے کام میں جائز تعاون ہی کر سکتے ہیں۔ کئی کمیٹیاں عمرہ کا شوق رکھنے والے افراد کے لیے مختلف اسکیمز نکالتی رہتی ہیں، یہ اگرچہ اچھی نیت کے ساتھ ہو، لیکن ضروری ہے کہ وہ اسکیم اسلام کے مطابق بھی ہو، جبکہ سوال میں ذکر کردہ اسکیم قرآن و حدیث کے خلاف اور جوئے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے۔ نیزاس کی خرابیوں میں سے یہ بھی ہے کہ  جوئے کے ذریعے جو مال ملے گا، وہ لینا حرام اور دوسروں کا مال باطل طریقے سے کھانا کہلاتا ہے۔پھر مالِ حرام سے کیا جانے  والا عمرہ بھی اللہ عزوجل کی پاک بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا۔ لہذا بحیثیتِ مسلمان اس اسکیم سے بچنا شرعاً لازم ہے۔ نیز اس اسکیم کی سر پرستی کرنے والوں کو بھی حکمتِ عملی سے شرعی حکم بتاتے ہوئے یہ اسکیم ختم کرنے کی ترغیب دلائیں، بلکہ انہیں خود بھی چاہئے کہ اس شیطانی عمل سے بچیں اور اپنی آخرت داؤ پر نہ لگائیں۔

   اس اسکیم کے جوئے پر مشتمل ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ جو افراد اس اسکیم میں رقم جمع کروائیں گے، انہی کا نام قرعہ اندازی میں شامل کیا جائے گا، پھر جس کا نام نکل آیا، اس کے لیے جمع شدہ رقم سے عمرہ کا انتظام کر دیا جائے گا اور بقیہ جن کا نام نہیں نکلا، ان کی رقم ضائع چلی جائے گی اور جوا کی تعریف بھی یہی ہے کہ اپنے مال کو اس طرح خطرہ پر ڈالنا کہ یا تو زائد مال مل جائے یا اپنا مال بھی چلا جائے۔

   جزئیات درج ذیل ہیں:

   جواکی تعریف معجم لغۃ الفقہاء میں کچھ یوں منقول ہے:” تعلیق الملک علی الخطر  والمال من الجانبینترجمہ:اپنی ملکیت کو خطرے میں ڈالنا، اس حال میں کہ مال دونوں طرف سے ہو۔ (معجم لغۃ الفقھاء، صفحہ369، مطبوعہ دار النفائس)

   اور محیطِ برہانی میں ہے:’’ القمار مشتق من القمر الذی يزداد وينقص، سمي القمار قماراً،لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص اخرى، فاذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً والقمار حرام ولان فيه تعليق تمليك المال بالخطر وانه لا يجوز‘‘ترجمہ:لفظ ’’قمار‘‘ ’’قمر‘‘سے بنا ہے جو گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہےاور قمار کو قمار اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں بھی بازی لگانے والوں میں سے ہر ایک کا مال دوسرے کے پاس جانا، ممکن ہوتا  ہے اور وہ مدِ مقابل کے مال سے نفع حاصل کر لیتا ہے ،پس اس طرح ان میں سے ہر ایک کا  مال بھی کبھی گھٹتا ہے اور کبھی بڑھتا ہے ،پس جب مال جانبین سے مشروط ہو ،تو یہ قمار ہو گا اور قمار حرام ہے ،اس لیے کہ اس  میں اپنے مال کو خطرےپر پیش کرنا ہےاور یہ جائز نہیں۔(محیط برھانی، کتاب الکراھیۃ، جلد6، صفحہ 54، مطبوعہ کوئٹہ)

   جوئے کو ’’مَیْسِر‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس کی مذمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَترجمہ کنز العرفان :’’اے ایمان والو!شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں، تو ان سے بچتے رہو کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘(پارہ7، سورۃ المائدہ، آیت90)

   مزید فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ﴾ترجمہ:’’شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب او ر جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض و کینہ ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے  ،تو کیا تم باز آئےہو؟۔‘‘(پارہ7، سورۃ المائدہ، آیت91)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ان اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام‘‘ترجمہ: اﷲتعالیٰ نے  شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول)حرام کیا اور فرمایا:ہر نشے والی چیز حرام ہے۔(سنن الکبری للبیھقی،جلد 10،صفحہ 360،مطبوعہ  بیروت)

   جوئےسے حاصل کردہ مال دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانا ہے اور اس کے متعلق اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِترجمۂ کنز الایمان :’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاو ۔‘‘ (پارہ 2،سورۃ البقرہ،آیت188)

   اس آیت کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے :’’ والمعنی:لا یاکل بعضکم مال اخیہ  بغیر حق ،فیدخل فی ھذا :القمار والخداع والغصوب ۔۔ وغیر ذلک ‘‘ترجمہ: اور (اس آیت کا) معنی یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھائے،اس عموم میں جوا ،دھوکادہی، غصب۔۔ وغیرہ سب داخل ہیں۔(تفسیر قرطبی، جلد2، صفحہ 338، مطبوعہ دار الکتب ،القاھرہ)

   ایسی اسکیم کے متعلق وقار الفتاوی میں ہے:’’ایسی کوئی لاٹری جائز نہیں، جس میں قرعہ اندازی کرنے سے اگر کسی ممبر کانام نہ نکلے، تو اس کا اپنا روپیہ ختم ہوجائے گا اور جس کا نام نکلا وہ دوسروں کا روپیہ حاصل کرلے، یہ جواہے۔‘‘   (وقار الفتاوی، جلد 3،صفحہ310،مطبوعہ کراچی )

   جوئےسے حاصل شدہ مال حرام ہے۔ فتاوی رضویہ میں ہے: ’’سوداورچوری اورغصب اورجوئے کاروپیہ قطعی حرام ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ646، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اور مالِ حرام سے کیا جانے والا عمرہ قبول نہ ہو گا۔ بغیۃالباحث عن زوائد مسند الحارث میں ہے: ’’ومن کسب مالا حراما لم تقبل لہ صدقۃ ولا عتق ولا حج ولا عمرۃ‘‘ترجمہ:جس نے مال حرام کمایا اللہ عزوجل نہ اس کا صدقہ قبول فرمائے گا ، نہ غلام آزاد کرنا، نہ حج کرنا اور نہ ہی عمرہ کرنا۔(بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث،جلد1،صفحہ309، مطبوعہ المدینۃ المنورہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم