Umrah Ke Tawaf Ke Chakkar Mein Shak Ho Jaye To ?

عمرے کے طواف کے پھیروں میں شک ہوجائے، تو کیا حکم ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor12164

تاریخ اجراء:        14 شوال المکرم1443 ھ/16مئی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عمرے کے طواف کے دوران اگر طواف کے پھیروں میں شک ہوجائے، لیکن  غالب گمان یہ ہو کہ یہ چھٹا چکر ہے تو کیا اس صورت میں غالب گمان پر عمل کرتے ہوئے مزید ایک چکر لگا کر طواف مکمل کیا جاسکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اس شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ دوبارہ سے طواف کرے غالب گمان پر عمل نہ کرے، کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر کسی شخص کو فرض یا واجب طواف میں شک پیدا ہوجائے تو اس صورت میں وہ دوبارہ سے طواف کرے غالب گمان پر عمل نہ کرے۔ البتہ اس صورت میں  اگر اسے کوئی عادل شخص خبر دے دے تو اس کے مطابق عمل کرنا بہتر ہے، اور اگر دو عادل افراد خبر دے دیں تو ان کی خبر کے مطابق ضرور عمل کرے۔

   چنانچہ رد المحتار  میں ہے:”لو شك في عدد الأشواط في طواف الركن أعاده ولا يبني على غالب ظنه، بخلاف الصلاة، وقيل إذا كان يكثر ذلك يتحرى، ولو أخبره عدل بعدد يستحب أن يأخذ بقوله، ولو أخبره عدلان وجب العمل بقولهما لباب قال شارحه ومفهومه أنه لو شك في أشواط غير الركن لا يعيده بل يبني على غلبة ظنه لأن غير الفرض على التوسعة والظاهر أن الواجب في حكم الركن لأنه فرض عملي۔ اهـ۔“ یعنی اگر کسی شخص کو فرض طواف  کے پھیروں میں شک ہوجائے تو اس صورت میں وہ اس طواف کا اعادہ کرے اور غالب گمان پر عمل نہ کرے  برخلاف نماز کے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب اس کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہو تو وہ تحری کرے۔ اور اگر اسے کوئی عادل شخص خبر دے دے تو اس کے قول پر عمل کرنا مستحب ہے، اور اگر دو عادل افراد خبر دیں تو ان کے قول پر عمل کرنا واجب ہے " لباب" میں یونہی مذکور ہے۔ لباب کے شارح نے فرمایا کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو فرض طواف کے علاوہ کسی اور طواف کے پھیروں میں شک ہوجائے تو اس صورت میں وہ اس طواف کا اعادہ نہ کرے بلکہ غالب گمان کے مطابق عمل کرے، کیونکہ نفلی طواف میں وسعت ہے اور یہاں سے یہ بات ظاہر ہے کہ واجب بھی فرض ہی کے حکم میں ہے کیونکہ واجب  بھی فرض عملی ہوتا ہے۔“(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الحج، ج 03، ص 582، مطبوعہ کوئٹہ)  

   بہارِ شریعت میں ہے:”طواف کے پھیروں میں شک واقع ہو ا کہ کتنے ہوئے تو اگر طواف فرض یا واجب ہے تو اب سے سات پھیرے کرے اور اگر کسی ایک عادل شخص نے بتا دیا کہ اتنے پھیرے ہوئے تو اُس کے قول پر عمل کرلینا بہتر ہے اور دو عادل نے بتایا تو ان کے کہے پر ضرور عمل کرے اور اگر طواف فرض یا واجب نہیں ہے تو غالب گمان پر عمل کرے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 1100، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم