مجیب: ابو حفص مولانا محمد
عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2503
تاریخ اجراء: 16شعبان المعظم1445 ھ/27فروری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک شخص جو کہ مکہ
مکرمہ میں ہی قیام پذیر ہے،اس نے کرونا کے زمانے میں مسجد
عائشہ سے عمرے کا احرام باندھا، جب
وہ عمر ہ کرنے کیلئے حرم کعبہ میں داخل ہونے لگا،تو
اُسے کسی وجہ سے عمرہ کرنے
سے روک دیا گیا۔لہذا اس شخص نے احرام کھول دیا ۔اور
اس کے بعد سے اب تک اس نے عمرے یا حج کا احرام نہیں باندھا۔اب ایسی
صورت میں اس کیلئے کیا حکم ہوگا؟اور کیا اس پر دم لازم ہوگا یا نہیں؟
نوٹ:سائل
نے بتایا کہ جب اس نے احرام کھولا
تو اس نے اپنے گمان میں یہ
سمجھا کہ اس طرح وہ احرام سے باہر ہوجائے گا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں
اس شخص نے اپنے گمان میں جو احرام ختم کرنے کی نیت سے احرام
کھولا ، تو در حقیقت وہ اس نیت سے احرام سے باہر نہیں ہوا،اور
اس کا احرام ختم نہیں ہوا، بلکہ وہ
شخص ابھی بھی بدستور احرام کی حالت میں ہی ہے، اس پر لازم ہے کہ فوراً
ہی احرام کی خلاف ورزیاں ترک کردے اور دوبارہ سے احرام کی
پابندیوں میں آجائے، اور احرام کی دو چادریں پہن کر جلد ہی
اپنے ذمے لازم ہونے والے عمرے کو
ادا کرے۔
یاد رہے !چونکہ وہ شخص ابھی تک
مُحرم ہی ہے،تو اب اُسے مسجد عائشہ یا کسی بھی
جگہ سے احرام کی نئی نیت
کرنے کی ضرورت نہیں۔اگر نئے سرے سے عمرے کی نیت
کرےگا تو دو احراموں کو جمع کرنے اور پھر اُن میں سے ایک کے رفض(ختم)
ہوجانے کے سبب اُس رفض ہونے والے عمرے کی قضا اور ایک
دم لازم ہوجائےگا ،لہذا بغیر
نئی نیت کئے،صرف چادریں
پہنے اور فوراً طواف و سعی کرنے چلا جائے اورطواف و سعی کے بعد حلق یا
تقصیر کرکے احرام سے باہر ہو ۔
پھر اس
صورت میں چونکہ اس نے اپنی لاعلمی کی بناء پر
احرام ختم کرنے کی نیت
کرلینے کے بعد، ممنوعاتِ احرام
کاموں کا ارتکاب کیا،لہذا اس صورت میں
تمام ممنوعات ِاحرام کے بد لےصرف
ایک ہی دم لازم
ہوگا،جس کی ادائیگی حدود حرم میں کرنا ضروری
ہوگا،نیز اس کے ساتھ ہی اتنے
عرصے تک ممنوعات کے ارتکاب کے سبب گناہگار بھی ہوا،لہذا اس گناہ سے توبہ کرنا بھی اس پر لازم
ہوگا ۔
احرام توڑنے
کی نیت کرنے اور
ممنوعات احرام کاموں کا ارتکاب کرنےسے احرام ختم نہیں ہوتا،جیسا کہ
مبسوط سرخسی میں ہے: ’’وكذلك بنية الرفض وارتكاب المحظورات فهو محرم على حاله‘‘ترجمہ:محرم
احرام توڑنے کی نیت اور ممنوعات کے ارتکاب کے سبب بھی حالت
احرام ہی میں رہے گا۔(مبسوط سرخسی،جلد4، صفحہ122،دار المعرفۃ،
بيروت)
اگر کوئی عمرے کے دو احراموں کو جمع کرے،تو ایک کے افعال
شروع کردینے سے دوسرے کا خود
بخود رفض ہوجائے گا ،اور رفض ہونے والے عمرے کی قضا کے ساتھ،دم بھی
لازم ہوگا،چنانچہ بحر الرائق ميں ہے:’’وإن كانا معا أو على التعاقب فالحكم
كما تقدم في الحجتين من لزومهما عندهما خلافا لمحمد من ارتفاع أحدهما بالشروع في
عمل الأخرى عند الإمام خلافا لأبي يوسف ووجوب القضاء ودم للرِفض‘‘ ترجمہ:اور اگر
دو عمروں کا احرام ایک ساتھ ہو یا ایک کے بعد دوسرے کا ہو تو اس
کا حکم وہی ہے جو دو حج کو جمع کرنے کا بیان ہوا یعنی یہ
دونوں عمرے شیخین کے نزدیک لازم ہوجائیں گے،برخلاف امام
محمد کے۔ اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دوسرے کے
افعال میں شروع ہونے سے اُن میں سے ایک کا ارتفاع ہوجائے گا
،برخلاف امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے اور اس چھوٹنے والے عمرے کی قضا واجب ہوگی
اور رِفض( ترکِ ) عمرہ کا ایک دم
لازم ہوگا۔(البحر الرائق،ج 3،باب اضافۃ الاحرام الی الاحرام،ص 56، دار
الكتاب الإسلامي)
احرام
ختم ہوجانے کے گمان سے اگر چند
ممنوعاتِ احرام کام کئے ،تو سب کے بدلے ایک ہی دم لازم ہوگا،جیسا
کہ رد المحتار علی الدر المختار میں
ہے:’’نية الرفض
باطلة لأنه لا يخرج عنه إلا بالأعمال، لكن لما كانت المحظورات مستندة إلى قصد واحد
وهو تعجيل الإحلال كانت متحدة فكفاه دم واحد۔بحر۔ قال في اللباب اعلم
أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب
والحلق والجماع، وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان
محرما ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب، ولو كل المحظورات وإنما يتعدد الجزاء بتعدد
الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا
القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا
تعتبر منه ‘‘ترجمہ:احرام
کو ختم کرنے کی نیت باطل ہے کیونکہ بغیر افعال کے احرام
سے نہیں نکلا جاسکتا،لیکن جب ممنوعات ایک ہی
قصد کی طرف منسوب ہوں اور وہ جلد
احرام سے نکلنا ہے تو تمام جنایات ایک ہی سمجھی جائیں گی اور اسے ایک دم کافی ہوگا۔لباب میں فرمایا: جان لے کہ محرم جب
احرام سے نکلنے کی نیت کرلے اور وہ کام شروع کر دے جو غیر ِمحرم
کرتا ہے جیسے سلے ہوئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، حلق کروانا، جماع کرنا اور
شکار کو قتل کرنا، تو وہ اس نیت سے احرام سے باہر نہیں آئے گا اور اُس
پر لازم ہوگا کہ جیسے پہلے محرم تھا، اسی حالت پرواپس لوٹ آئے اور اُس
پر تمام ممنوع اُمور کے ارتکاب کے عوض ایک ہی دم لازم ہو گا، اگر چہ
اُس نے سارے ہی ممنوعات احرام کا ارتکاب کیا ہو اور متعد دجنایات
سے متعدد کفارے اُس وقت لازم ہوتے ہیں جب احرام سے نکلنے کی نیت
نہ کی ہو۔ پھر احرام سے نکلنے کی نیت اُسی کی
معتبر ہے جو یہ گمان کرتا ہو کہ وہ اس قصد کے ذریعے احرام سے نکل جائے
گا۔اور جو جانتا ہو کہ اس طرح صرف نیت سے وہ احرام سے نہیں نکلے
گا تو اب اس کی یہ نیت معتبر نہیں ہوگی( اور متعدد
جنایات سے متعدد کفارے لازم ہوں گے) ۔ (رد المحتار علی الدر المختار،
جلد3،باب الجنایات،صفحہ665،دارالمعرفۃ،بیروت)
دم کے جانور کی قربانی حرم میں کرنا ضروری ہے،چنانچہ لباب
المناسک میں ہے:’’ والثالث:ذبحہ فی الحرم ‘‘ترجمہ:(دم کی ادائیگی
کی شرائط میں سے )تیسری شرط ،اُس جانور کا حرم میں ذبح ہونا ہے۔ (لباب المناسک،فصل فی احکام الدماء ،ص 554،مطبوعہ مکۃ
المکرمۃ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟