Walid Ne Aulad Ko Hajj Karwaya Tu Aulad Ka Farz Hajj Ada Hoga Ya Nahi ?

والد نے بالغ اولاد کو حج کروا یا، تو اولاد کا فرض حج ادا ہوگا یا نہیں ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13072

تاریخ اجراء:        14 ربیع الثانی 1445 ھ/30 اکتوبر 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  جب کوئی لڑکا بالغ ہوجائے،لیکن ابھی غیر شادی شدہ ہو، کماتا بھی نہ ہو اور اس کے والد نے اسے حج کروادیا ، تو کیا اس کا فرض حج ادا ہوجائے گاجبکہ اس کے پاس اپنا مال نہیں ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   والد نے اپنے بالغ لڑکے کو حج کروایااور اس نے فرض حج یا مطلق حج کی نیت سے حج کی ادائیگی کی ، تو بالغ لڑکےکا فرض حج ادا ہوگیا،خواہ وہ کماتا ہو یا نہ کماتا ہو، شادی شدہ ہو یا کنوارہ۔ اس حج کی ادائیگی کے بعد اگر یہ خود بھی مالدار ہوگیا، تو اس پر دوبارہ حج فرض نہ ہوگا۔ ہاں اگر اس نے  خاص نفلی حج کی نیت سے حج ادا کیا ، تو اب اس کا فرض حج ادا نہ ہوگا اور حج  فرض ہونے کی شرائط پائی جانے کی صورت میں اس پر دوبارہ حج کرنا فرض ہوجائے گا۔

   منحۃ الخالق ومناسک ملا علی قاری میں ہے:”(اما الفقیر ۔۔۔ اذا حج سقط عنہ الفرض ان نواہ )ای الفرض فی احرام حجہ (او اطلق النیۃ)وان لم یقید بکونہ نفلا او نذرا(حتی لو استغنی )ای صار غنیا بحصول المال من الوجہ الحلال (بعد ذلک)ای بعد ادائہ الحج بغیر استطاعۃ(لا یجب علیہ ثانیا)ای فی المآل“یعنی فقیر نے جب حج کر لیا تو اس کا فرض ساقط ہوجائے گا اگر اس نے حج کے احرام میں فرض کی نیت کی یا مطلق نیت کی  اور حج کو  نفل یا نذر کے ساتھ مقید نہ کیاہو ۔ یہاں تک کہ اگر وہ  بغیر استطاعت حج ادا کر لینے کے بعدحلال ذریعہ سے مال حاصل ہونے کی وجہ سے غنی ہوگیا تو مستقبل میں اس پر دوسری بار حج واجب نہیں ہوگا۔(مناسک ملا علی قاری، صفحہ 70، مطبوعہ:بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:”اذا حج بالسؤال من الناس يجوز ذلك عن حجة الاسلام حتى لو ايسر لا يلزمه حجة اخرى“یعنی  فقیر نے لوگوں سے مانگ کر حج کر لیا، تو یہ حجۃ الاسلام(یعنی فرض حج) کو کافی ہوگا یہاں تک کہ اگر وہ مالدار ہوگیا، تو اس پر دوسرا حج لازم نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع، جلد2،صفحہ 120،بیروت)

   فتاوی ھندیہ ومناسک ملا علی قاری میں ہے:”(لو احرم بالحج) ای مطلقا(ولم ینو فرضا ولا تطوعا فھو فرض)لان المطلق ینصرف الی الکامل۔۔۔۔(ولو نوی)ای الحج(عن الغیر  او النذر او النفل )ای التطوع(کان)ای حجہ(عما نوی)ای مما عین لہ(وان لم یحج للفرض)ای لحجۃ الاسلام“یعنی اگر کسی نے مطلقاً حج کی نیت سے احرام باندھا اور فرض یا نفل کی نیت نہ کی، تو حجِ فرض ادا ہوگا، کیونکہ مطلق فردِ کامل کی طرف منصرف ہوتا ہے۔۔۔۔ اور اگرکسی دوسرے کی طرف سے حج کی نیت کی یا نذر یا نفل کی نیت کی ،تو اس کا حج اسی کی طرف سے ہوگا ،جس کے لئے اس نے معین کیا  اگرچہ اس نے ابھی تک فرض حج ادا نہ کیا ہو۔(مناسکِ ملا علی قاری، صفحہ120،،مطبوعہ:بیروت)

   نفل کی نیت سے حج کرنے کی صورت میں جب فرض حج ادا نہ ہو، تو شرائط پائے جانے کی صورت میں دوبارہ حج کرنا لازم ہوگا۔اس کے متعلق رد المحتار میں ہے:”لو نواہ نفلا لزمہ الحج ثانیا“یعنی اگر اس نے نفلی حج کی نیت کی، تو اس پر دوبارہ حج کرنا لازم ہوگا۔(رد المحتار، جلد 3،صفحہ 526،مطبوعہ:کوئٹہ)

   فتاوی امجدیہ میں ہے:”زید اپنے بڑے لڑکے کو اگر اپنے ساتھ حج کو لے جاتا ہے اگر وہ لڑکا بالغ ہے ،تو اس کا یہ حج حجِ فرض ادا ہوگا اور حجِ فرض ہی کی اس کو نیت باندھنی چاہئے“(فتاوی امجدیہ، جلد1،صفحہ 400، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اگر فقیر ہو جب بھی اسے حجِ فرض کی نیت کرنی چاہئے ، نفل کی نیت کرے گا ، تو اس پر دوبارہ حج کرنا فرض ہوگا اور مطلق حج کی نیت کی  یعنی فرض یا نفل کچھ معین نہ کیا ، تو فرض ادا ہوگیا“(بہارِ شریعت، جلد1،حصہ 6،صفحہ 1041،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم