Zati Makan Ke Liye Raqam Rakhi Ho Tu Is Ki Wajah Se Hajj Farz Hoga Ya Nahi ?

ذاتی مکان کے لئے رقم رکھی ہو، تو اس کی وجہ سے حج فرض ہوگا یا نہیں؟

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1203

تاریخ اجراء: 13جمادی الثانی1445 ھ/27دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جس کے پاس اپنا ذاتی مکان نہیں ہے، وہ خود کرائے کے مکان میں رہتا ہے، کیا اُس پر حج فرض ہوگا جبکہ اتنے پیسے اُس کے پاس موجود ہوں مگر یہ مکان خریدنے کے لئے رکھے ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب گورنمنٹ کی طرف سے حج کے فارم جمع ہو رہے ہوں یا اس کے بعد جب تک پرائیویٹ طور پر حج کے لیے جانا ممکن ہو اور انہی دنوں میں اتنی رقم موجود ہو کہ اس رقم سے حج کیا جا سکتا ہے اور حج فرض ہونے کی دیگر شرائط بھی پائے جا رہے ہوں تو حج کرنا فرض ہے، اگر چہ اپنا ذاتی گھر نہ ہو اور رقم ذاتی گھر خریدنے کے لیے جمع کی ہو ۔ایسی کیفیت میں مکان خریدنے کے لیے رقم استعمال کر لینا جائز نہیں ہوگا۔ہاں اگر فارم جمع ہونے کا زمانہ آنے سے پہلے ہی  ذاتی گھر خرید لیا تو پھر حج فرض نہیں ہوگا جبکہ اس کے علاوہ بقدرِ استطاعت مال نہ ہو۔

   بدائع الصنائع میں ہے "ثم ما ذكرنا من الشرائط لوجوب الحج من الزاد ، والراحلة ، وغير ذلك يعتبر  وجودها وقت خروج أهل بلده حتى لو ملك الزاد ، والراحلة في أول السنة قبل أشهر الحج ، وقبل أن يخرج أهل بلده إلى مكة فهو في سعة من صرف ذلك إلى حيث أحب ؛ لأنه لا يلزمه التأهب للحج قبل خروج أهل بلده ؛ لأنه لم يجب عليه الحج قبله ، ومن لا حج عليه لا يلزمه التأهب للحج فكان بسبيل من التصرف في ماله كيف شاء ، وإذا صرف ماله ثم خرج أهل بلده لا يجب عليه الحج فأما إذا جاء ، وقت الخروج ، والمال في يده فليس له أن يصرفه إلى غيره على قول من يقول بالوجوب على الفور ؛ لأنه إذا جاء وقت خروج أهل بلده فقد وجب عليه الحج لوجود الاستطاعة فيلزمه التأهب للحج ، فلا يجوز له صرفه إلى غيره كالمسافر إذا كان معه ماء للطهارة .وقد قرب الوقت لا يجوز له استهلاكه في غير الطهارة ، فإن صرفه إلى غير الحج أثم ، وعليه الحج "ترجمہ :جو ہم نے وجوبِ حج کی شرائط ذکر کی ہیں مثلاً  زادِراہ اور سواری وغیرہ ہونا ان کےپائے جانے کا اعتبار اہل شہرکے حج کے لئے نکلنے کے وقت ہوگا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اشہر حج سے پہلے ،سال کے شروع میں زادِراہ اور سواری کا مالک ہے تو اہل شہرکے مکے کی طرف نکلنے سے پہلےاس کواس بات کا اختیار ہے کہ وہ رقم جہاں چاہے صرف کردے کیونکہ ابھی اس پر اہل بلد کے نکلنے سے پہلے حج کی تیاری کرنا لازم نہیں کیونکہ اس سے پہلے حج لازم نہیں ہوتا اور جس پر حج لازم نہ ہوا ہو اس پر حج کی تیاری کرنا بھی لازم نہیں تو یہ اپنا مال جہاں چاہے خرچ کرسکتا ہے اور جب اس مال کو خرچ کردیا پھر اہل بلد حج کے لئے نکلے تو اس پر اب بھی حج لازم نہیں ۔لیکن اگر لوگوں کے نکلنے کا وقت آگیا اور مال اس کے پاس موجود ہے تو اب اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس مال کو کسی اور کام میں خرچ کرے ان ائمہ کے قول پر جن کے نزدیک حج کرنا علی الفور واجب ہے کیونکہ جب اہل بلد کے حج کے لئے نکلنے کا وقت آگیا تو استطاعت پائے جانے کی وجہ سے اس پر حج کرنا لازم ہوگیا لہٰذا اس کی تیاری بھی اس پر لازم ہے اور اب اس کےلئے کسی اور کام میں مال خرچ کردینا جائز نہیں ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ مسافر جس کے پاس طہارت کے لئے پانی ہو اور نماز کا وقت قریب آجائے تو اب اس کے لئے اس پانی کو طہارت کے علاوہ کسی اور کام میں خرچ کردینا جائز نہیں ۔لہٰذا  اس صورت میں اگر اس نے حج کے علاوہ کسی اور کام میں وہ مال خرچ کردیا تو یہ گناہگار ہوگا اور حج کرنا اس کے ذمہ لازم رہے گا ۔(بدائع الصنائع ،جلد3، صفحہ51،مطبوعہ مصر )

   المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط میں ہے :"ومن لہ مال یبلغہ ای الی مکۃ ذھابا و ایابا ولامسکن لہ ولا خادم ای والحال انہ لیس لہ سکن یاوی الیہ، ولاعبد یخدمہ، ویکون حوالیہ، وھو محتاج الی کل منھما او احدھما ،فلیس لہ صرفہ الیہ ای صرف المال ای صرف المال الی ما ذکر من المسکن والخادم ان حضر الوقت ای وقت خروج اھل بلدہ للحج فانہ تعین اداء النسک علیہ ،فلیس علیہ ان یدفعہ عنہ الیہ بخلاف من لہ مسکن یسکنہ لایلزمہ بیعہ والفرق بینھما ما فی البدائع وغیرہ عن ابی یوسف انہ قال اذا لم یکن لہ مسکن ولاخادم ،ولہ مال یکفیہ لقوت عیالہ من وقت ذھابہ الی حین ایابہ وعندہ دراھم تبلغہ الی الحج لاینبغی ان یجعل ذالک فی غیرالحج فان فعل اثم لانہ مستطیع بملک الدراھم ،فلایعذر فی الترک ،ولایتضرر بترک شراء المسکن والخادم ،بخلاف بیع المسکن والخادم فانہ یتضرر ببیعھما "ترجمہ:اور جس کے پاس مکہ مکرمہ جانے اور وا پس آنے کے اخراجات ہیں اور اس کے پاس گھر اور خادم نہیں ہے یعنی اس کی حالت یہ ہے کہ اس کے پاس گھر نہیں جس میں رہے اور نہ ہی خادم ہے جس سے خدمت لے سکے اور ان دونوں کی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی حاجت بھی ہے تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس مال کو گھر یا خادم کے خریدنے میں صرف کرے ۔ یہ اس وقت ہے جب اس شہر والوں کا حج کے لئے نکلنے کا وقت ہو کیونکہ اب اس پر حج کرنا متعین ہوگیاتو اب اس کے لئے جائز نہیں ہےکہ اس مال کو حج کے علاوہ کسی اور جگہ خرچ کرے بخلاف اس کے کہ جس کے پاس گھر موجود ہے جس میں وہ رہتا ہے تو اس کو بیچ کر حج کرنا لازم نہیں ہے اور ان دونوں مسئلوں میں کہ جو بدائع الصنائع میں ہے اوراس کے علاوہ امام ابویوسف سے مروی ہے فرمایا کہ جب کسی کے پاس گھر نہ ہو اور نہ ہی خادم ہو اور ا س کے پاس اتنا مال ہے کہ ا س کے جانے کے وقت سے لے کر واپس آنے تک ا س کے اہل وعیال کے نفقہ کو کافی ہو اور ا س کے پاس اتنے درہم  ہیں کہ حج تک پہنچ جائے تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ حج کے علاوہ میں خرچ کرے اگر اس نے حج کے علاوہ خرچ کیا تو گنہگار ہوگا (اور حج کرنا اس کے ذمہ لازم رہے گا)کیونکہ درہم کے ملکیت میں ہونے کی وجہ سے استطاعت ثابت ہوگئی اور حج کو ترک کرنے میں کوئی عذر بھی نہیں ہے اور نہ ہی گھر اور خادم کے نہ خریدنے میں کوئی ضرر ہے بخلاف اس کے کہ جو گھر اور خادم اس کے پاس موجود ہیں ان کو بیچ کر جانے میں ضرر ہے ۔(المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،ص44،مطبوعہ کوئٹہ )

   بہار شریعت میں ہے: ”روپیہ ہے جس سے حج کرسکتا ہے مگر مکان وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہے اور خریدنے کے بعد حج کے لائق نہ بچے گا تو فرض ہے کہ حج کرے اور باتوں میں اُٹھانا گناہ ہے یعنی اس وقت کہ اُس شہر والے حج کو جارہے ہوں اور اگر پہلے مکان وغیرہ خریدنے میں اُٹھا دیا تو حرج نہیں۔“      (بہار شریعت، جلد1، صفحہ1042، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم