Kiya Nikah mein Dulha Or Dulhan Ke Haqiqi Walid Ka Name Lena Zarori Hai?

کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟

مجیب:   مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:   Har:1911

تاریخ اجراء:04محرم الحرام  1438 ھ/06اکتوبر  2016 ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے یانہیں ؟نیز کسی نے بچہ گودلیا ، اس کے حقیقی والد کا نام معلوم نہیں تو کیا گودلینے والے کا نام بطور ولدیت لے سکتے ہیں یا نہیں ؟

          سائل:علی حمزہ(پریٹ آباد ، حیدرآباد )

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نکاح میں ضروری امر یہ ہے کہ گواہوں کے سامنے نکاح کرنے والے مرد اورعورت کی تعیین ہوجائے یعنی گواہوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں لڑکےکا فلاں عورت سے نکاح ہورہاہے۔اگر دولھا اور دلہن مجلس عقد میں موجود ہیں تو ان کی طرف اشارہ کرنا ہی کافی ہے ، کسی کا نام مع ولدیت یا بغیر ولدیت لینابھی ضروری نہیں ہے۔اور اگر دونوں یا کوئی ایک مجلس نکاح میں موجود نہیں جیسا کہ عموماً ہمارے ہاں دلہن مجلس عقد میں موجود نہیں ہوتی، اس کی طرف سے اس کا وکیل ایجاب یا قبول کرتا ہے، تو اس صورت میں اگر نام یا کسی اور چیز سے تعیین ہو کہ گواہ پہچان لیں تو صرف اسی قدر  کافی ہے ، باپ ، دادا کا ذکر ضروری نہیں ہے اور اگر اس کے بغیر تعیین کی کوئی صورت نہ ہو تو اس صورت میں باپ اور دادا کا نام لینا ضروری ہے۔الغرض اصل مقصود تعیین ہے کسی خاص  کا نام لینا نہیں۔یہ یاد رہے کہ یہ مسئلہ خاص نکاح کے ساتھ ہی متعلق نہیں بلکہ مطلقاً ہےکہ منہ بولا بیٹا اپنے حقیقی باپ ہی کا بیٹا ہے  لہٰذا پکارنے ، یا قانونی دستاویز مثلاً شناختی کارڈ ، پاسپورٹ ، نکاح نامہ وغیرہ میں لے پالک بچہ کی ولدیت کی جگہ  پر حقیقی والد ہی کا نام استعمال کریں ۔حقیقی والد  کے علاوہ پرورش کرنے والے کی طرف بطور ولدیت منسوب کرنا حرام ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم