بیوی کو ماں بہن بیٹی کہہ کربلانا

مجیب:   محمد سجاد  عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web:06

تاریخ اجراء: 09ربیع الثانی 1442 ھ/25نومبر2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

          کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر  کوئی آدمی اپنی بیوی کوباجی ،ماں یا بیٹی کہہ بیٹھے تو اس کے لیے کیا حکم ہےکیا اس سے نکاح ختم ہوجاتاہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     شوہر کا اپنی بیوی کوفقط   ماں ،بہن ،بیٹی وغیرہ کہہ کر پکارنا یا یوں کہنا کہ تم میری ماں،بہن ،باجی وغیرہ ہو،ناجائز و گناہ ہےجس سے توبہ کرنا  اس پر لازم ہے البتہ اس سے  نکاح پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی ظہار وغیرہ لازم ہوتا ہےہاں اگر اس طرح کے الفاظ کہے’’ تو میر ی بہن کی طرح ہے،تو میری بیٹی کی مانند ہے ،تومیر ی ماں کی مثل ہے وغیرہ تو اس صورت میں ان کلمات سے  جو نیت کر ے گا اسی کااعتبار ہوگا اگر اُس کے اِعزازکے ليے کہا تو کچھ لازم نہیں، طلاق کی نیت ہے تو بائن طلاق واقع ہوگی ، ظہار کی نیت ہے تو ظہار ہے اور تحریم(حرام کرنے)کی نیت ہے تو ایلا ہے اور اگر کچھ بھی نیت نہیں تھی ایسے ہی کہہ دیا تواگرچہ ایسا کہناجائز نہیں البتہ اس سے کچھ لازم نہیں ہوگا۔

     اللہ تبارک وتعالی قرآن کریم  میں ارشاد فرماتاہے: مَا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ ؕاِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اﻼ وَلَدْنَهُمْ ؕوَ اِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًاؕ     ’’ ترجمہ کنزالایمان: جورئیں (یعنی بیویاں)ان کی مائیں   نہیں،  ان کی مائیں تو وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہیں اور وہ بےشک بُری اور نِری جھوٹ بات کہتے ہیں۔ ‘‘

(پارہ28، المجادلہ ،آیت :2)

سنن ابوداؤد شریف میں ہے:’’ ان رجلا   قال لامرتہ  ،یا اخیۃ  ،فقال  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   :اختک  ھی  ،فکرہ   ذلک و نھی عنہ “یعنی  ایک شخص نے   اپنی بیوی  کو  اے میری بہن ! کہہ کر  پکارا  تو  رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نےفرمایا  کیا  یہ تیر ی بہن ہے ؟ اسے    ناپسند  فرمایا اور اس سے منع کیا ۔ ‘‘ (سنن ابوداؤد ،کتاب الطلاق ،جلد 1،صفحہ319 ،حدیث:2210،مطبوعہ لاہور )

سیدی  امام اہلسنت اعلی ٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں:’’ زوجہ کو ماں بہن کہنا خواہ یوں کہ اسے ماں بہن کہہ کر پکارے ، یا یوں کہے تو میری ماںمیری بہن ہے سخت گناہ و ناجائز ہے ، مگر اس سے نہ نکاح میں کوئی خلل آئے نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو ۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر یوں کہا ہو کہ تو مثل یا مانند یا بجائے ماں بہن کے ہے تو اگر بہ نیت طلاق کہا تو ایک طلاق بائن ہوگئی اور عورت نکاح سے نکل گئی اور بہ نیت ظہار یا تحریم کہا یعنی یہ مراد ہے کہ مثل ماں بہن کے مجھ پر حرام ہے تو ظہار ہوگیا اب جب تک کفارہ نہ دے لے عورت سے جماع کرنا یا شہوت کے ساتھ اس کا بوسہ لینا یا بنظر شہوت اس کے کسی بدن کو چھونا یا بنگاہِ شہوت اس کی شرمگاہ دیکھنا سب حرام ہوگیا،اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ جماع سے پہلے ایک غلام آزاد کرے، اسکی طاقت نہ ہوتو لگاتار دو مہینہ کے روزے رکھے، اس کی بھی قوت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی طرح اناج یا کھانا دے۔  ‘‘ ( ملخص از فتاویٰ رضویہ جدید جلد13 صفحہ280 مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہو ر )

بہارشریعت میں ہے :عورت سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے تو نیت دریافت کی جائے اگر اُس کے اِعزاز کے ليے کہا تو کچھ نہیں اور طلاق کی نیت ہے تو بائن طلاق واقع ہوگی اور ظہار کی نیت ہے تو ظہار ہے اور تحریم کی نیت ہے تو ایلا ہے اور کچھ نیت نہ ہو تو کچھ نہیں۔ (بہارشریعت ،حصہ 8،صفحہ 207،مکتبہ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم