ولیمہ کی دعوت بڑےپیمانےپر نہیں کی،تو کیا ولیمہ ہوجائے گا؟ |
مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:Nor:10224 |
تاریخ اجراء:08صفرالمضفر1441ھ/08اکتوبر2019ء |
دارالافتاء اہلسنت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ اگر کسی شخص کی اتنی استطاعت نہ ہو کہ وہ باقاعدہ وسیع پیمانے پر ولیمہ کرے،لہذا وہ شب زفاف کے بعد گھر میں ہی کھانا پکا کرسسرال کے کچھ افراد کو بلا کر دعوتِ ولیمہ کرلے، تو کیا اس کا ولیمہ ہوجائے گا؟ رہنمائی فرمادیں۔ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
پوچھی گئی صورت میں ولیمہ ہوجائے گا، کیونکہ ولیمہ کے لیے یہ بات لازم و ضروری نہیں کہ وہ زیادہ اہتمام کے ساتھ ہی کیا جائے ۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ مرد اپنی حیثیت کے مطابق دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کرے۔ صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”قال النبی صلى اللہ عليه وسلم اولم ولو بشاۃ“یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ولیمہ کرو، اگرچہ بکری ہی سے ہو۔ (صحیح البخاری، کتاب النکاح، جلد 02، صفحہ777،مطبوعہ کراچی) علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ اس حدیثِ مبارک کے تحت فرماتے ہیں:”قال عیاض: و اجمعوا علیٰ ان لا حد لاکثرھا، واما اقلھا فکذلک، و مھما تیسر اجزأ، و المستحب انھا علیٰ قدر حال الزوج“یعنی قاضی عیاض علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ولیمہ کی دعوت کے لیے زیادتی کی کوئی حد نہیں، اسی طرح کمی کی بھی کوئی حد نہیں، بلکہ جو چیز میسر ہوجائے وہ کفایت کرے گی، البتہ شوہر کی حیثیت کے مطابق ولیمہ کی دعوت کا ہونا مستحب ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، جلد 09، صفحہ 293، مطبوعہ کراچی) مرأۃ المناجیح میں ہے:”اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ۔۔۔ولیمہ کرنا سنت ہے۔۔۔ ولیمہ بقدرِ طاقت زوج ہو اس کے لیے مقدار مقرر نہیں ۔ملتقطاً“ (مرأۃ المناجیح، جلد 05، صفحہ 72، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاھور) فتاوی امجدیہ میں ہے:”(ولیمہ کی)دعوت سنت کے لیے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ،اگر دو چار اشخاص کو کچھ معمولی چیز، اگرچہ پیٹ بھر نہ ہو ،اگرچہ دال روٹی چٹنی روٹی ہو، یا اس سے بھی کم کھلاویں سنت ادا ہوجائے گی اور کچھ بھی استطاعت نہ ہو، تو کچھ الزام نہیں۔ ملخصاً “ (فتاویٰ امجدیہ، جلد4، صفحہ 225-224، مکتبہ رضویہ، کراچی) مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”ولیمہ وہ دعوت ہے جو شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست و احباب، عزیز و اقارب اور محلے کے لوگوں کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کی جائے ۔“ (وقار الفتاویٰ،جلد03،صفحہ 137، مطبوعہ بزم وقار الدین) |
|
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟