شوہر کی اجازت کے بغیر مہر میں اضافہ کر دیا تو کیا وہ دینا لازم ہے؟

مجیب:مولانا صدیق صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10503

تاریخ اجراء:26رجب المرجب1442ھ/11مارچ2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کے نکاح میں باہم رضا مندی سے5ہزار حق مہر طے ہوا تھا اور اسی مہر پر ایجاب و قبول ہوا ، پھر  بعد میں زید کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کے علم میں لائے بغیر ہی لڑکی والوں نے مولوی صاحب سے فارم میں حق مہر 150000 لکھوا  لیا ، زید کو بعد میں جب علم ہوا، تو اس نے یہ اضافی رقم دینے سے انکار کر دیا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ نکاح کے بعد حق مہر  میں  جو اضافہ کیا گیا ہے ، کیا یہ بھی زید پر دینا لازم ہوگا جبکہ  وہ اس پرراضی  نہیں اور علم ہونے پر اس نے دینے سے انکار  بھی کر دیا تھا ؟نوٹ:لڑکی والے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وقت عقد  مہر میں5000ہی تھا ،زید کی مرضی و اجازت کے بغیر یہ  بعد میں ہم نے اضافہ کروایا تھا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دریافت کی گئی صورت میں  زید پر صرف اتنا ہی  مہر ادا کرنا لازم ہے جو دونوں کی رضا مندی سے مقرر ہواتھا یعنی 5000اورلڑکی والوں کی طرف سے ازخودجو  اضافہ کیا گیا،وہ دینا زید پر لازم نہیں، کیونکہ لڑکی والوں نے اس کی اجازت و مرضی کے بغیر یہ اضافہ کیا، تو وہ اس میں فضولی ہوئے اور فضولی کا  کیا ہوا  اضافہ شوہر کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے، راضی ہو جائے تو لازم ہو جاتا ہے ، رد کر دے تو باطل ہو جاتا ہےاور صورتِ مسئولہ میں زید نے علم ہونے کے بعد یہ اضافی رقم دینے سے  چونکہ انکار کر دیا تھا ، اس لیے یہ باطل ہو گیا ۔

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ ﴾ترجمہ کنز الایمان:’’اور قرارداد  کے بعد تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجائے تواس میں گناہ نہیں۔‘‘

(پارہ5،سورۃالنساء،آیت 24)

    تفسیر بیضاوی میں اس آیت کے تحت ہے:”فيما يزاد على المسمى أو يحط عنه بالتراضي“ترجمہ:باہم تراضی سے جو کچھ طےشدہ مہر میں زیادہ  یا کم کیا جاتاہے اس میں گناہ نہیں ہے۔                        

(تفسیر بیضاوی،  جلد2،صفحہ69،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت)

    بحر الرائق میں ہے :”واستدلوا  لجوازها بقوله تعالى :﴿وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ﴾ [النساء: 24] فإنّه يتناول ما تراضوا على إلحاقه وإسقاطه“ترجمہ:اورعلماء نےاس(مقررہ مہر میں اضافہ کرنے )کے جائز ہونے کا استدلال اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کیا ہے﴿وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ﴾ کہ یہ آیت باہم رضامندی سے مہر بڑھانے یا گھٹانے کو شامل ہے۔

(البحر الرائق ، جلد3،صفحہ 261،مطبوعہ کوئٹہ)

    مقررہ مہر میں کمی کرنے کے لیے صرف بیوی کی رضامندی ،جبکہ  اضافہ کرنے کے لیے  میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے ،اس حوالے سے بدائع الصنائع میں ہے:”وتجوز الزیادۃ فی المھراذا تراضیابھاوالحط عنہ اذا رضیت بہ“ترجمہ:مقررہ مہر میں اضافہ  کرنا ، جائز ہے ،جبکہ میاں بیوی دونوں اس پر راضی ہوں اور کمی بھی جائز جبکہ بیوی اس پر راضی  ہو۔

(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،جلد3،صفحہ519 ،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

    رد المحتار میں ہے :’’ واشترط القبول لأن الزيادة في المهر لا تصح إلا به فتح عن التجنيس‘‘ یعنی: مہر زیادہ کیا تو  شوہر کاقبول کرناشرط ہے کیونکہ مہر میں زیادتی شوہر کے قبول کرنے سے ہی درست ہو گی۔فتح القدیر بحوالہ تجنیس ۔

(رد المحتار،جلد3،صفحہ113، دار الفکر ، بیروت )

    تنویر الابصار اوردرمختار میں ہے:”( ھومن يتصرف في حق غيره بغير إذن شرعي،کل تصرف صدر منہ)تملیکا کان کبیع وتزویج او اسقاط کطلاق واعتاق (ولہ مجیز)ای لھذہ التصرف من یقدر علی اجازتہ (حال وقوعہ انعقد موقوفا ملتقطاً ) “یعنی:فضولی وہ شخص ہے جوشرعی اجازت کے  بغیردوسرے   کے حق میں تصرف کرے ۔ہروہ تصرف جو فضولی سے صادرہو ،خواہ وہ تملیک کے قبیل سے ہوجیساکہ بیع، نکاح یا اسقاط کے قبیل سے جیساکہ طلاق اور آزاد کرنا اور اس کے صدور کے وقت کوئی اس کو جائز کرنے پر قدرت رکھنے والا موجود ہو توفضولی کا وہ تصرف موقوفا منعقد ہوگا۔

(تنویر الابصار والدر المختار مع رد المحتار، جلد5،صفحہ106،107،دار الفکر بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم