حق مہر کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کتنا رکھ سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Har-3861

تاریخ اجراء:17ذو القعدۃ الحرام1442ھ/28جون2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مہر کی کم سے کم مقدار کتنی ہے ؟ نیز زیادہ سے زیادہ کس حد تک مہر مقرر کیا جاسکتا ہے ؟وہ حد بندی بھی بیان فرمادیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شریعت مطہرہ میں مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اس کی قیمت ہے ، اس سے کم مہر مقرر کرنا درست نہیں ہے ۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے :"اقل المھر عشرۃ دراھم مضروبۃ او غیر مضروبۃ و غیر الدراھم یقوم مقامھا باعتبار القیمۃ۔ ملتقطا" مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے خواہ یہ ڈھلے ہوئے ہوں یا بغیر ڈھلے ہوئے اور درہم کے علاوہ کوئی چیز ہو تو وہ  قیمت کے اعتبار سے ان دراہم کے قائم مقام ہوگی ۔ملتقطا

 (فتاویٰ عالمگیری ، جلد 1 ، صفحہ 302 ، مطبوعہ  کوئٹہ )

    سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں :"کم سے کم مہر دس ہی  درہم ہے یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ۔اور چاندی کے علاوہ اور کوئی چیز دے تو دوتولے ساڑھے سات ماشے چاندی کی قیمت معتبر ہوگی ۔"ملخصا    

 (ملخصا ۔ فتاویٰ رضویہ ، جلد12 ، صفحہ 162، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    نیز زیادتی کی جانب شریعت مطہرہ نے کوئی حد بندی نہیں فرمائی،جتنا زیادہ چاہیں باہمی رضامندی سے مقرر کرسکتے ہیں البتہ بہتر یہ ہے کہ حیثیت کے مطابق اتنا مہر مقرر کیا جائے کہ جسے باآسانی ادا کیا جاسکے ،لیکن یاد رہے کہ حیثیت سے  زیادہ مقرر کرنا بھی ناجائز و گناہ نہیں اور جتنا زیادہ مہر مقرر کریں گے مقرر کرنے سے لازم ہوجائے گا۔درمختار میں ہے :"(و)یجب(الاکثران سمی)الاکثر"اور اگر (دس درہم سے )زیادہ مہر مقرر کیا تو یہ زیادہ واجب ہوگا ۔

(درمختار مع ردالمحتار ، جلد 4، صفحہ 223، مطبوعہ  کوئٹہ )

    اس کے تحت علامہ محقق ابن عابدین الشامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :"ای بالغا ما بلغ فالتقدیر بالعشرۃ لمنع النقصان"یعنی وہ زیادتی جس مقدار کو پہنچے (لازم ہوجائے گی )لہٰذا دس درہم کی مقدار کم کی ممانعت کیلئے ہے (کہ مہر اس سے کم نہ ہو )۔"

 (ردالمحتار ، جلد 4، صفحہ 223، مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں :"مہر شرعی کی کوئی تعداد مقرر نہیں ، صرف کمی کی طرف حد معین ہے کہ دس درہم سے کم نہ ہو اور زیادتی کی کوئی حد نہیں ، جس قدر باندھا جائے گا لازم آئے گا ۔ملتقطا "

(فتاوٰی رضویہ ، جلد 12، صفحہ 165، مطبوعہ :رضا فاونڈیشن لاھور )

    مہر میں بہتر یہ ہے کہ آسان ہو اس سے متعلق ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے  روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :اعظم النساء برکۃ ایسرھن صداقا" بڑی برکت والی وہ عورتیں ہیں کہ جن کے مہر آسان ہوں ۔

(المستدرک علی الصحیحین ، جلد 2، صفحہ 299، مطبوعہ  کراچی )

    سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں :"حیثیت سے زائد مہر نامناسب ہے، کوئی گناہ نہیں جس پر مواخذہ ہو ۔ "

 ( فتاوٰی رضویہ ، جلد 12، صفحہ 177، مطبوعہ رضا فاونڈیشن ، لاھور)

    صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں :"کم سے کم مہر کی مقدار دس درہم شرعی ہے اس سے کم نہیں ہوسکتا ، اور زیادہ کے لئے شریعت نے کوئی حد نہیں رکھی جو باندھا جائے گا لازم ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ شوہر اپنی حیثیت ملحوظ رکھے کہ یہ اس کے ذمہ دین ہے ، یہ نہ سمجھے کہ کون دیتا ہے کون لیتا ہے ؟ اگر یہاں نہ دیا تو آخرت کا مطالبہ سر پر رہا ۔ "

 (فتاوٰی امجدیہ ، جلد 2، صفحہ 144، مطبوعہ  مکتبہ رضویہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم