2 Biwiyon Ke Nafqe Ke Hawale Se Tafseel

دوبیویوں کے نفقہ کے حوالے سے تفصیل

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

فتوی نمبر: WAT-1232

تاریخ اجراء:       08 ربیع الثانی 1444 ھ/04نومبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نفقہ میں دو بیویوں کے درمیان  کیا برابری رکھنا ضروری ہے، تفصیلا ارشاد فرما دیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفقہ دوقسم کاہے ،ایک اصل نفقہ جوشوہرپراپنی بیوی کاواجب ولازم ہے اوردوسرااس سے زائد۔پہلی قسم کانفقہ دوبیویوں میں برابررکھنااس وقت لازم ہے کہ جبکہ دونوں بیویاں مال اورفقروغنا کی حالت  کے اعتبارسے برابر ہوں ۔اوراگراس معاملے میں دونوں کی حالت ایک جیسی نہیں ہے ،ایک فقیرہ اوردوسری غنیہ ہے   توشوہراوربیوی دونوں کے حال کے مطابق نفقہ لازم ہوگا۔مثلاشوہراوربیوی دونوں امیرکبیرہیں توامیروں والااوردونوں غریب ہیں توغریبوں والااوراگرایک امیراورایک غریب ہے تومتوسط یعنی درمیانے قسم کا،لیکن اس آخری صورت میں اگرشوہرامیرہے تواسے چاہیے کہ جیساخودکھاتاہے ،ویسابیوی کوبھی کھلائے اگرچہ واجب اس پرصرف متوسط ہے ۔

نوٹ: برابری اورکمی بیشی والی   یہ تفصیل سارے نفقے میں ہے یعنی کھانے پینے میں بھی اورکپڑے اوررہائش  وغیرہ میں بھی ۔

   اور واجب نفقہ سے جو زائداشیاء دے مثلا دُودھ، چائے، میوے، مہندی ،پھل ، مٹھائی،زائدکپڑے،پلاٹ ،مکان، تحائف وغیر ہ تمام زوائد میں دونوں بیویوں کے درمیان مطلقا برابری لازم ہے اگرچہ ایک فقیراوردوسری غنی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک کو یہ اشیاء دے اور دوسری کو نہ دے یا ایک کو زیادہ دے اور دوسری کو کم دے کہ اس طرح فرق کرنے سے شوہر ظالم و گنہگار ٹھہرے گا ۔

     فتاوی رضویہ میں  ایک مقام پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :'' کھانا دو قسم ہے ایک اصل نفقہ جوزوجہ کے لئے زوج پر واجب ہے، دُوسرا اس سے زائد مثل فواکہ وپان والائچی وعطایا وہدایا، قسم اوّل میں برابری صرف اُس صورت میں واجب ہے جب دونوں عورتیں مال وحالت فقروغنا میں یکساں ہوں ورنہ لحاظ حال زوج کے ساتھ غنیہ کے لئے اس کے لائق واجب ہوگا اور فقیرہ کے لئے اس کے لائق مثلاً زوج اور ایک زوجہ دونوں امیر کبیر ہیں کہ اپنے اپنے یہاں اُن کی خوراک باقرخانی ومُرغ پلاؤ ہے، اور دوسری زوجہ فقیرہ ہے کہ جوار باجرے کی روٹی کھاتی ہے اور آپ پیستی پکاتی ہے' ان دونوں کے نفقہ میں مساوات واجب نہیں ہوسکتی، پہلی کے لئے وہی بریانی اور مزعفرلازم ہے اور دوسری کے لئے گیہوں کی روٹی اور بکری کا گوشت، پہلی کے لئے خادم بھی ضرور ہوگا دوسری آپ خدمت کرلے گی، پہلی کریب اور زربفت پہنے گی دوسری کوتنزیب اور ساٹھن بہت ہے، پہلی کے لئے مکان بھی عالی شان درکار ہوگا دوسری کے لئے متوسط۔ اور قسم دوم میں مطلقاً برابری چاہئے، جو چیز جتنی اور جیسی ایک کو دے اُتنی ہی اورویسی ہی دوسری کو بھی دے۔ دُودھ، چائے، میوے، پان، چھالیا، الائچی، برف کی قلفیاں، سُرمہ، مہندی وغیرہ وغیرہ تمام زوائد میں مساوات رکھے کہ وہاں فرق اصل وجوب میں تھا یہ اشیاء واجب نہیں ان میں ایک کو مرجح رکھنا اس کی طرف میل کرنا ہوگا اور میل ممنوع ہے ۔‘‘ (فتاوی رضویہ ، ج12،ص276،277رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   بہار شریعت میں ہے” اگر مرد و عورت دونوں مالدار ہوں تو نفقہ مالداروں کاسا ہوگا اور دونوں محتاج ہوں تو محتاجوں کا سا اورایک مالدار ہے، دوسرا محتاج تو متوسط درجہ کا یعنی محتاج جیسا کھاتے ہوں اُس سے عمدہ اور اغنیا جیسا کھاتے ہوں اُس سے کم اور شوہر مالدار ہواور عورت محتاج تو بہتر یہ ہے کہ جیسا آپ کھاتا ہو عورت کو بھی کھلائے، مگر یہ واجب نہیں واجب متوسط ہے۔

   نفقہ کا تعین روپوں سے نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیشہ اُتنے ہی روپے ديے جائیں اس ليے کہ نرخ بدلتا رہتا ہے ارزانی و گرانی دونوں کے مصارف یکساں نہیں ہوسکتے بلکہ گرانی میں اُس کے لحاظ سے تعداد بڑھائی جائے گی اور ارزانی میں کم کی جائے گی۔

   جاڑوں میں جاڑے کے مناسب اور گرمیوں میں گرمی کے مناسب کپڑے دے مگر بہر حال اس کا لحاظ ضرور ی ہے کہ اگر دونوں مالدار ہوں تو مالداروں کے سے کپڑے ہوں اور محتاج ہوں تو غریبوں کے سے اور ایک مالدار ہو اور ایک محتاج تو متوسط جیسے کھانے میں تینوں باتوں کا لحاظ ہے۔ اور لباس میں اُس شہر کے رواج کااعتبار ہے جاڑے گرمی میں جیسے کپڑوں کا وہاں چلن ہے وہ دے چمڑے کے موزے عورت کے ليے شوہر پر واجب نہیں مگر عورت کی باندی کے موزے شوہر پر واجب ہیں۔ اور سوتی، اونی موزے جو جاڑوں میں سردی کی وجہ سے پہنے جاتے ہیں یہ دینے ہونگے۔" (بہار شریعت ،ج 2،حصہ 8،ص 265،267،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم