Baap Ka Larki Ke Nikah Ke Aiwaz Kaseer Raqam Ka Mutalba Karna Kaisa Hai ?

باپ کا لڑکی کے نکاح کے عوض کثیر رقم کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ فروری 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس  مسئلہ کے بارے میں کہ بعض علاقوں میں باپ وغیرہ سرپرست  لڑکی کے نکاح کے عوض کثیر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس رقم کے عوض لڑکی کا نکاح کرتے ہیں ۔ یہ رقم مہر و جہیز کے علاوہ ہوتی ہے۔ اور یہ رقم لڑکی کو نہیں دیتے بلکہ رشتہ دینے کے عوض اپنے لیے لیتے ہیں ۔  اس کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟ بیان فرمادیں ۔

سائل:ممتاز(تھر پار کر ،سندھ)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     رشتہ دینے کے عوض رقم کا مطالبہ کرنا اور اس رقم کے بدلے رشتہ دینا ناجائز و حرام ہے کہ یہ رشوت ہے۔رسول پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رشوت لینے اور دینے والے کے متعلق لعنت فرمائی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ:لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الراشی و المرتشی۔ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رشوت دینے والے اور لینے والے (دونوں ) پر لعنت فرمائی ہے۔(ابو داؤد، 2/148)

     ایک اور حدیث پاک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ومامن قوم یظھر فیھم الرشا الا اخذوا بالرعب۔ اور کوئی قوم ایسی نہیں کہ جس میں رشوت عام ہوجائے مگر انہیں مرعوبیت میں مبتلا کردیا جاتا ہے ۔(مشکوة ،2/656)

     حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں :”یعنی رشوت لینے والا شخص مرعوب ہوتا ہے اور رشوت لینے والی قوم پر دوسری قوم کی ہیبت طاری ہوجاتی ہے جیسا کہ آج ہم لوگ کفار سے مرعوب ہیں ۔“(مراٰة المناجیح ، 5/338)

     عالمگیری میں ہے :خطب امراۃ فی بیت اخیھا فابی ان یدفعھا حتی یدفع دراھم فدفع وتزوجھا یرجع بما دفع لانھا رشوۃ۔ عورت کہ جو اپنے بھائی کے گھر میں تھی اسے کسی شخص نےنکاح کا پیغام بھیجا تو اس کے بھائی نے نکاح سے انکار کیا یہاں تک کہ اس کو کچھ دراہم دیئے جائیں تو اس شخص نے دراہم دیئے اور نکاح کرلیا تو جو دراہم اس نے دیئے وہ واپس لے کیونکہ وہ رشوت ہیں ۔(عالمگیری ، 4/403)

     سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں : اگر وُہ روپیہ دینے والا اس لئے دیتا ہے کہ اس کے لالچ سے میرے ساتھ نکاح کردیں جب تو وہ رشوت ہے اس کا دینا لینا سب ناجائز وحرام۔یُوں ہی اگر اولیائے عورت نے کہاکہ اتنا روپیہ ہمیں دے تو تجھ سے نکاح کردیں گے ورنہ نہیں جیسا کہ بعض دہقانی جاہلوں میں کفار ہنود سے سیکھ کر رائج ہے  تو یہ بھی رشوت و حرام ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 12/284 ، ملخصاً)

     اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ، اس غرض سے لی گئی رقم جس سے لی اس کو واپس کرنا ضروری ہے ۔علامہ محقق ابنِ عابدین الشامی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بحر الرائق کی عبارت (لوخطب امراۃ فی بیت اخیھا فابی الاخ الا ان یدفع الیہ دراھم فدفع ثم تزوجھا کان للزوج ان یسترد ما دفع لہ عورت کہ جو اپنے بھائی کے گھر میں تھی اسے کسی شخص نےنکاح کا پیغام بھیجا تو اس کے بھائی نے نکاح سے انکار کیا حتی کہ اس کو کچھ دراہم دیئے جائیں تو اس شخص نے دراہم دیئے پھر اس سے  نکاح کرلیا تو جو دراہم اس نے دیئے ہیں شوہر وہ واپس لے  سکتا ہے) کے تحت منحۃ الخالق میں فرماتے ہیں :”ای قائما او ھالکا لانہ رشوۃ کذا فی البزازیۃ“۔ یعنی وہ دراہم خواہ اس کے پاس موجود ہوں یا اس کے پاس ہلاک ہوچکے ہوں (بہر صورت واپس لے سکتا ہے ) کیونکہ یہ رشوت ہے ۔ اسی طرح فتاوٰی  بزازیہ میں ہے۔(منحة الخالق مع بحر الرائق، 3/324)

     سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :یہ روپے جو(نکاح میں دینے کے عوض ) باندھے گئے ہیں محض رشوت وحرام ہیں ، نہ ان کاکھانا جائز، نہ بانٹ لیناجائز، نہ مسجد میں لگانا جائز، بلکہ لازم ہے کہ جس شخص سے لئے ہیں اسے واپس دیں ۔(فتاوٰی رضویہ، 23/538)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم