Mehar Ki Adaigi Mein Rupay Ki Qader Ka Aitbaar

مہر کی ادائیگی میں  روپے کی قدر کا اعتبار

مجیب:مولانا ماجد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی کم و بیش 36سال قبل ہوئی تھی اور 11000حق مہر طے ہوا تھا ابھی تک میں نے مہر ادا نہیں کیا تھا اب جب میں نے مہر ادا کرنا چاہا تو میری زوجہ کا کہنا ہے کہ 11000تو اس وقت طے ہوا تھا مگر اب تو روپے کی ویلیو (Value)بڑھ گئی ہے لہٰذا اب میں بطورِ مہر آپ سے1,50,000ایک لاکھ پچاس ہزار لوں گی۔ اب مجھے معلوم کرنا ہے کہ کیا مہر میں اس طرح روپے کی ویلیو (Value) کا اعتبار ہوگا یا نہیں اور مجھے کتنا مہر ادا کرنا ہوگا؟

سائل:سید عبد المختار(پی،آئی،بی کالونی،باب المدینہ کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جتنا مہر مقرر ہوا تھا اتنا ہی دینا ہوگا کرنسی کی ویلیو(Value) زیادہ ہونے کا یہاں کوئی اعتبار نہیں ہے چنانچہ صدرُ الشَّریعہ بدرُالطَّریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:مہر کم از کم دس درہم(2تولہ ساڑھے 7ماشہ چاندی) ہے خواہ سکّہ ہو یا ویسی ہی چاندی یا اس قیمت کا کوئی سامان، اگر درہم کے سوا کوئی اور چیز مہر ٹھہری تو اس کی قیمت عَقْد (نکاح)کے وقت دس دِرْہَم سے کم نہ ہو اور اگر اس وقت تو اسی قیمت کی تھی مگر بعد میں قیمت کم ہوگئی تو عورت وہی پائے گی پھیرنے کا اسے حق نہیں۔

(بہارِ شریعت،2/64،مکتبۃ المدینہ،باب المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم