وقتِ نکاح دولہا، دلہن سے کلمے سُننا کیسا؟

مجیب: مولانانوید چشتی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر/نومبر 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نکاح کے وقت کسی دولہا یا دلہن سے کلمے نہ سُنے جائیں یا دو تین سے زیادہ وہ کلمے نہ سُنا سکے تو نکاح میں کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟ وضاحت فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نکاح میں کلمے پڑھنا لازم یا شرط نہیں ہے یعنی یہ سمجھنا کہ اگر کلمے نہیں پڑھیں گے تو نکاح منعقد ہی نہ ہوگا، یہ شرعاً درست نہیں، کیونکہ دو مسلمانوں کا نکاح گواہوں (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرنے سے ہو جاتا ہے، اس میں کلمے پڑھنا شرط نہیں۔ البتہ نکاح کے وقت کلمے پڑھنا مستحسن عمل ہے کہ ان کلمات میں اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاذکر ہے، اور ان کا ذکر نزولِ برکات کا سبب، خصوصاً اس اہم موقع پر ویسے ہی حصولِ برکت و سلامتی کے لئے کثرت سے ذکر کرنا مناسب ہے کہ اب سے دونوں کی نئی زندگی کا آغاز ہو رہا ہے، اور اس کا آغاز اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بابرکت نام سے کرنا نیک فال ہے۔

    اس کے علاوہ نکاح کے موقع پر کلمے پڑھنے کا ایک مقصد توبہ و تجدیدِ ایمان کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ خیال رہے کہ اگر دولہا کو کلمے یاد ہیں اور بھرے مجمع میں وہ پڑھ سکتا ہے تو پڑھ دے ورنہ بھری محفل میں اس کو شرمندگی سے بچانے کے لئے نکاح خواں اسے پڑھاتا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم