رخصتی میں تاخیر کرنا کیسا؟

مجیب:  مولاناجمیل غوری صاحب زید مجدہ

مصدق:  مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر/نومبر 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ ابھی صرف نکاح ہوا اور رخصتی آٹھ نو مہینوں بعد یا ایک دو سال کے بعد ہو۔ تو کیا شرعی طور پر رخصتی میں تاخیر کرنا صحیح ہے؟

    (سائل:شاہ محمد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    فریقین میں باہمی رضامندی سےاگریہ طے ہوکہ ابھی فقط نکاح کیا جارہا ہے، رخصتی بعد میں طے شدہ وقت پر کی جائے گی تو مصلحتاً رخصتی میں تاخیر کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ نکاح کے بعدکسی بھی ایک فریق کو بے جاضد نہیں کرنی چاہئےاگر وقت سے پہلے رخصتی کا ارادہ ہو تو باہم رضا مندی اور خوش اسلوبی سے معاملے کو حل کرلینا چاہئے۔

    مصلحتاً رخصتی میں تاخیرکا جواز بخاری شریف و دیگر کتب میں موجود حدیث شریف سے ثابت ہے کہ سرکارِ دو جہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حضرتِ سیّدتنا عائشہ صدیقہ طیّبہ طاہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ ہجرت سے قبل مکۂ مکرمہ میں فقط نکاح ہوا تھا اور رخصتی تین سال کے بعدمدینۂ منورہ میں ہوئی تھی ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم