Apni Maa Ke Sage Mamo Ki Beti Se Nikah

اپنی ماں کے سگے ماموں کی بیٹی سے نکاح

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13337

تاریخ اجراء:24 رمضان المبارک 1445 ھ/04 اپریل 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اپنی والدہ کے سگے ماموں کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ اس کی خالہ بن رہی ہے ، اس لئے نکاح نہیں ہوسکتا؟

سائل:محمد شبیر (کاغذی بازار)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اپنی والدہ کے سگےماموں کی بیٹی سے نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے جبکہ حرمت کی کوئی اور وجہ(مثلاً رضاعت یا مصاہرت) نہ پائی جا رہی ہو کیونکہ  قرآن پاک میں اللہ رب العالمین   نےجن محرمات کا ذکر فرمایا،  ان میں اپنی والدہ کے ماموں کی بیٹی شامل نہیں ،لہٰذا یہ حلال عورتوں میں داخل ہے،اسی لئے فقہا نے ارشاد فرمایا کہ اپنی اصلِ بعید(یعنی دادا،نانا ، پردادا ، پر نانا ) کی فرعِ بعید(یعنی ان کی پوتیوں ، نواسیوں) سے نکاح کرنا حلال ہے اور پوچھی گئی صورت میں والدہ کے سگے ماموں کی  بیٹی اپنی اصلِ بعید کی فرعِ بعید یعنی  اپنے پر نانا کی پوتی  ہے، لہٰذا اس سے نکاح حلال ہے ۔

   اللہ رب العالمین نے قرآن پاک میں محرمات  کا ذکر کرنے کے بعدارشاد فرمایا:” وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ “ ترجمۂ کنزالایمان: اور اُن کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو۔ (سورۂ نساء، آیت 24)

   شرح الوقایۃ میں ہے:”والاصل البعید : الاجداد والجدات فتحرم بنات ھؤلاء الصلبیۃ  ای العمات والخالات لاب وام او لاب او لام وکذا عمات الاب والام وعمات الجد والجدۃ لکن بنات ھؤلاء ان لم تکن صلبیۃ لا تحرم “یعنی اصلِ بعید یعنی دادا، دادیاں، تو ان کی صلبی بیٹیاں یعنی پھوپھیاں، خالائیں  اور اسی طرح باپ و ماں کی پھوپھیاں  اور دادا  ، دادی پھوپھیاں (حرام ہیں)، لیکن ان کی بیٹیاں اگر صلبی نہ ہوں ، تو حرام نہیں ۔ (شرح الوقایۃ مع عمدۃ الرعایۃ، جلد 3، صفحہ 32۔33، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اصلِ بعید کی فرعِ قریب جیسے اپنے دادا ، پردادا، نانا ، دادای ، پر دادی، نانی کی بیٹیاں یہ سب حرام ہیں اور اصلِ بعید کی فرعِ بعید جیسے انہی اشخاصِ مذکورہ آخر کی پوتیاں ، نواسیاں جو اپنی اصلِ قریب کی فرع نہ ہوں، حلال ہیں“(فتاوی رضویہ، جلد 11، صفحہ 517، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   فتاوی بحر العلوم میں سوال ہوا:”میری ماں کے  خاص ماموں جان کی لڑکی سے میرا نکاح ہوا جائز ہے یا نہیں؟

   اس کے جواب میں مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جائز ہے ۔ قرآنِ عظیم میں ہے: وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ(فتاوی بحر العلوم ،جلد2،صفحہ 316،شبیر بردارز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم