Apni Saas ki Behan Se Shadi Karne ka Hukum

اپنی ساس کی بہن سے شادی کر نے کا حکم

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2577

تاریخ اجراء: 08رمضان المبارک1445 ھ/19مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    میرا سوال یہ ہے کہ کیا داماد اپنی ساس کی بہن سے شادی کر سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے،داماد اپنی ساس کی بہن سے شادی نہیں کر سکتا،کیونکہ ساس کی بہن  اس کی بیوی کی خالہ بن رہی ہے اور شرعی اصول کے مطابق  بھانجی، خالہ کو  بیک وقت نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں۔ہاں البتہ اگر اس شخص کی اپنی بیوی نکاح میں نہ رہی ہو(مثلاطلاق دے دی اوراس کی عدت بھی گزرگئی یابیوی فوت ہوگئی) تو اس صورت میں اگرکوئی اورممانعت کی وجہ نہ ہو(مثلاحرمت مصاہرت ورضاعت وغیرہ )تو وہ اپنی ساس کی بہن سے شادی کرسکتا ہے،کیونکہ اس صورت میں بیک وقت بھانجی اور خالہ کو  نکاح میں جمع کرنانہیں پایا جائے گا۔

   چنانچہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث میں حدیث پاک ہے:واللفظ للبخاری"عن أبي هريرة رضي الله عنه:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يجمع بين المرأة وعمتهاولا بين المرأة وخالتها" ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : کوئی شخص عورت اور اس کی پھوپھی یا عورت اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ (یعنی بیک وقت ایک نکاح میں) جمع نہ کرے ۔   (الصحیح البخاری، باب: لا تنكح المرأة على عمتها،ج5،ص1965، دار اليمامة،دمشق)

   ملک العلماء امام ابو بكر بن مسعود بن  كاسانی فرماتے ہیں:"والجمع بين المرأة وعمتها وبنتها وبين خالتها مما قد حرمه الله تعالى على لسان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الذي هو وحي غير متلو على أن حرمة الجمع بين الأختين معلولة بقطع الرحم، والجمع ههنا يفضي إلى قطع الرحم، فكانت حرمة ثابتة بدلالة النص "ترجمہ: عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اورعورت کو اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں  جمع  کرنا ان میں سے ہے کہ جس کو اللہ تعالی نے نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ  وسلم کے زبان اقدس کے ذریعے حرام فرمایاجو ایسی وحی ہے جس کی (قرآن کی طرح )تلاوت نہیں کی جاتی(حرام اس وجہ سے ہے کہ)دو بہنوں کو جمع کرنے کے حرام ہونے کی علت صلی رحمی کا نہ ہونا ہے اور یہاں (یعنی پھوپی وبھتیجی اور  خالہ وبھانجی)کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا بھی قطع رحم  کی طرف لے جاتا ہے لہذا ان کا نکاح دلالت النص کی وجہ سے حرام ہے ۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،ج 02،ص263، دار الكتب العلمية ،بیروت)

 بہار شریعت  میں ہے” وہ دو عورتیں کہ اُن میں جس ایک کو مرد فرض کریں، دوسری اس کے ليے حرام ہو (مثلاً دو بہنیں کہ ایک کو مرد فرض کرو تو بھائی، بہن کا رشتہ ہوا یا پھوپی ،بھتیجی کہ پھوپی کو مرد فرض کرو تو چچا، بھتیجی کا رشتہ ہوا اور بھتیجی کو مرد فرض کرو تو پھوپی ،بھتیجے کا رشتہ ہو ا یا خالہ ،بھانجی کہ خالہ کو مرد فرض کرو تو ماموں، بھانجی کا رشتہ ہوا اور بھانجی کو مرد فرض کرو تو بھانجے ،خالہ کارشتہ ہوا) ایسی دو ۲ عورتوں کو نکاح میں جمع نہیں کر سکتا۔ (بہا رشریعت ،ج02،حصہ 07،ص27،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم