Biwi Aur Us Ki Bhanji Ki Beti Ko Nikah Mein Jama Karne Ka Hukum

بیوی اور اس کی بھانجی کی بیٹی کو نکاح میں جمع کرنے کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13082

تاریخ اجراء:        17 ربیع الثانی 1445 ھ/02 نومبر 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   زاہد نے دو شادیاں کی، ایک بیوی کا نام زینب ہے ،جس سے ان کی ایک بیٹی عافیہ ہے ۔ عافیہ کی بیٹی خدیجہ ہے اور خدیجہ کی بیٹی مریم ہے ۔زاہد کی دوسری بیوی کا نام فاطمہ ہے جس سے ایک بیٹی عائشہ ہے جس کا نکاح غلام مصطفی سے ہوچکا ہے۔  اب مریم (جو کہ زاہد کی پرنواسی ہے) کا نکاح غلام مصطفی سے کیا جارہا ہے ۔ کیا مریم کا نکاح غلام مصطفی سے کرنا،  جائز ہے جبکہ عائشہ( جو کہ زاہد کی بیٹی ہے) اس کے نکاح میں موجود ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جبکہ عائشہ غلام مصطفی کے نکاح میں موجود ہے ، تو مریم کا نکاح غلام مصطفی سے کرنا ، ناجائز و حرام ہے۔

   اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے:ایسی دو عورتیں جو آپس میں محرم ہوں یعنی ان میں سے جس کو بھی مرد فرض کیا جائے تو دوسری اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو،ایسی دو عورتوں کو  نکاح میں جمع کرنا ، ناجائز و حرام ہے۔یہاں بھی ایسا ہی ہے کہ اگر عائشہ کو مرد فرض کیا جائے ، تو مریم اس کی بھانجی کی بیٹی ہوگی، تو جس طرح اپنی بھانجی حرام ہے اسی طرح اس کی بیٹی بھی حرام ہے اور اگر مریم کو مرد فرض کرتے ہیں،تو عائشہ اس کی ماں کی خالہ ہےاور  جس طرح اپنی خالہ حرام ہے،اسی طرح  ماں کی خالہ بھی حرام ہےلہٰذا عائشہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے غلام مصطفی کا مریم سے نکاح جائز نہیں ۔

   بخاری شریف میں امام شعبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا،حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تنکح المراۃ علی عمتھا او خالتھا“یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس عورت سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔(صحیح بخاری، جلد 7، صفحہ 12،مطبوعہ:مصر) 

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”ای یحرم الجمع بینھما سواء کانت عمۃ وخالۃ حقیقیۃ او مجازیۃ وھی اخت ابی الاب وابی الجد  وان علا واخت ام الام وام الجدۃ من جھتی الام والاب وان علت فکلھن حرام بالاجماع ویحرم الجمع بینھما فی النکاح“یعنی ان دونوں کو جمع کرنا حرام ہے خواہ پھوپھی و خالہ حقیقی ہوں یا مجازی ۔ مجازی پھوپھی  دادااور پردادا  کی بہن ہے اگرچہ اوپر تک ہوں اور نانی و پرنانی کی بہن ماں اور باپ کی جہت سے اگرچہ اوپر تک ہوں، تو یہ تمام بالاجماع حرام ہیں اور ان کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد 5،صفحہ 2076، مطبوعہ:بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے:”والاصل ان کل امرأتین لو صورنا احداھما من ای جانب ذکرا لم یجز النکاح بینھمابرضاع او نسب  لم یجز الجمع بینھما ھکذا فی المحیط“یعنی اصول یہ ہے کہ ایسی دو عورتیں کہ ان میں سے کسی ایک کو مرد فرض کر لیا جائے تو ان دونوں کے درمیان رضاعت یا نسب کی وجہ سے نکاح جائز نہ ہو ،تو ان دو عورتوں کو جمع کرنا ، جائز نہیں،اسی طرح محیط میں ہے۔(فتاوی ھندیہ ، جلد 1 ، صفحہ 277 ، مطبوعہ: کوئٹہ)

   علامہ محمد بن ولی الازمیری حنفی (متوفی 1165)کمال الدرایہ میں فرماتے ہی:”لا یجوز الجمع بین امراۃ وعمتھا وخالتھا وعمۃ امھا وخالۃ امھا وعمۃ ابیھا وخالۃ ابیھاوبنت اخیھا وبنت اختھا“یعنی عورت کو اس کی پھوپھی اورخالہ، ماں کی پھوپھی اور خالہ، باپ کی پھوپھی اور خالہ  ،بھتیجی، اور بھانجی کے ساتھ نکاح میں جمع کرنا ، جائز نہیں۔(کمال الدرایۃ، جلد3،صفحہ 39،مطبوعہ:بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:”من تزوج عمۃ ثم بنت اخیھا او خالۃ ثم بنت اختھا لا یجوز“یعنی جس نے پھوپھی سے نکاح کیا پھر اس کی بھتیجی  یا خالہ سے نکاح کیا پھر اس کی بھانجی سے تو یہ  نکاح جائز نہیں ہے۔(بدائع الصنائع، جلد 2،صفحہ 262، مطبوعہ:بیروت)

   امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا:”ایک مرد نے ایک عورت سے نکاح کیا، ابھی وہ عورت زندہ سلامت اس مرد کے نکاح میں موجود ہے، اب وہی مرد اس عورت کے بھائی کی نواسی سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔  آیا یہ جمع کرنا درمیان عورت اور اس عورت کی بھتیجی کی بیٹی کے حلال ہے یا حرام؟“اس کے جواب میں امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حرام ہے۔ اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ جو  دوعورتیں آپس میں محرم ہوں یعنی ان میں سے جس کو مرد فرض کیا جائے دوسری اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو ایسی دو عورتوں کو جمع کرنا ، جائز نہیں ، یہاں ایسا ہی ہے اگر منکوحہ اولیٰ کو مرد فرض کرتے ہیں ، تو وہ دوسری اس کی بھتیجے کی بیٹی اور جس طرح بھتیجی حرام ہے یونہی بھتیجے کی بیٹی  اور اگر اس دوسری کو مرد فرض کرتے ہیں، تو وہ پہلی اس کی ماں کی پھوپھی ہے اور جس طرح اپنی پھوپھی حرام ہے یونہی ماں کی“(فتاوی رضویہ، جلد 11،صفحہ 346۔347، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم