Jis Aurat Se Zina Kiya Uski Beti Se Nikah Karna Kaisa ?

جس عورت سے زنا کیا، اس کی بیٹی سے نکاح کرنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12978

تاریخ اجراء: 12صفر المظفر1445 ھ/30اگست 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے ہندہ کے ساتھ زنا کیا جبکہ ہندہ کی پہلے ہی سے ایک لڑکی موجود ہے۔ تو کیا زید ہندہ زانیہ کی اُس لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے؟  شریعت اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   استغفر اللہ!زنا کرنا،   ناجائزوحرام، جہنم کا مستحق بنانے والا،بے حیائی پر مشتمل کام ہے۔  اس  کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے ۔ اس برے فعل سے بچنا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے۔  لہذا پوچھی گئی صورت میں زید اور ہندہ دونوں پر شرعاً لازم ہے کہ توبہ کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اس گناہ سے صدقِ دل سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کریں اور آئندہ اس گناہ سے باز رہیں، نیز ہر اس چیز سے دور بھاگیں  جو اس گناہ میں معاون و مددگار بنے۔

   البتہ پوچھی گئی صورت میں زید کا نکاح ہندہ زانیہ کی لڑکی سے کسی صورت نہیں ہوسکتا، کیونکہ زانی اور زانیہ کے اصول و فروع ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، اب ہندہ زانیہ کی لڑکی زنا کے سبب زید پر حرام ہوچکی ہے لہذا اس لڑکی سے زید کا نکاح کرنا ، ناجائز و حرام ہے۔

   زنا کی مذمت پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕوَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲)ترجمہ کنزالایمان:” اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ،  بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ۔“(القرآن الکریم: پارہ 15، سورۃ بنی اسرائیل،آیت 32)

   زنا کی نحوست اور اس کی ہولناکی کا اندا زہ درج ذیل احادیثِ مبارکہ سے لگائیے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” رايتُ الليلة رجلين اتيانی فاخذا بيدي فاخرجانی الى الارض المقدسة ۔۔۔ فانطلقنا الى ثقبٍ مثل التنّور اعلاه ضيق واسفله واسعٌ يتوقّد تحته نارٌ فاذا اقترب ارتفعوا حتى كادوا ان يخرجوا فاذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراةٌ فقلتُ: من هذا؟ قالا:۔۔۔والذی رايتَه فی الثقب فهم الزناۃیعنی میں نے آج رات دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور میرا پاتھ پکڑ کر مجھے مقدس زمین  کی طرف لے گئے۔ ہم چلتے رہے اور  تنور کی مثل ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو اوپر سے تنگ اور نیچے سے کشادہ تھا ۔ اس کے نیچے آگ جل رہی تھی ۔ آگ کی وجہ سے اس میں موجود لوگ باہر نکلنے کے قریب ہوتے  تھے پھر جب آپ کے شعلے نیچے جاتے تو اس میں موجود افراد بھی نیچے چلے جاتے ۔ اس میں برہنہ مرد  اور عورتیں تھے ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ تو ان دونوں نے (کچھ دیر بعد ) عرض کی کہ جن لوگوں کو آپ نے سوراخ میں دیکھا وہ زانی ہیں۔    (صحیح بخاری، کتاب الجنائز،باب ما قيل فی اولاد المشركين، ج 02،ص100، دار طوق النجاۃ، ملتقطاً)

   زانیہ کی لڑکی سے نکاح حرام ہےچنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ  ہے:”وَرَبَآىٕبُكُمُ  الّٰتِیْ  فِیْ  حُجُوْرِكُمْ  مِّنْ  نِّسَآىٕكُمُ  الّٰتِیْ  دَخَلْتُمْ  بِهِنَّترجمہ کنزالایمان: ” حرام ہوئیں تم پر ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں اُن بیبیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو ۔“(القرآن الکریم: پارہ05،سورۃ النساء،آیت 23)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاوٰی رضویہ میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:”"الّٰتِیْ  دَخَلْتُمْ  بِهِنَّ" یعنی ان عورتوں کی بیٹیاں جن کے ساتھ تم نے صحبت کی، معلوم ہوا صرف اسی قدر علت تحریم ہے اور یہ قطعاً مزنیہ میں بھی ثابت کہ وہ ایک عورت ہے جس کے ساتھ اس نے صحبت کی ، لاجرم بحکم آیت ا س کی بیٹی اس پر حرام ہوگئی۔(فتاوٰی رضویہ، ج11، ص354، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   زانیہ کے اصول و فروع زانی پر حرام ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ تنویر الابصار اور درمختار میں ہے:’’(و)حرم أیضاً بالصھریۃ( أصل مزنیتہ ۔۔۔ وفروعھن)مطلقاً‘‘یعنی  حرمتِ مصاہرت کی وجہ سے زانیہ کے اصول و فروع زانی پر مطلقا حرام ہو جاتے ہیں۔

   اس عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے:”قال فی البحر:أراد بالحرمۃ المصاھرہ الحرمات الأربع حرمۃ المراۃ علی أصول الزانی و فروعہ نسباً ورضاعاً،وحرمۃ أصولھا وفروعھا علی الزانی نسباً ورضاعاً کما فی الوطء الحلالیعنی بحر الرائق میں فرمایا کہ یہاں حرمتِ مصاہرت سے چار طرح کی حرمت مراد ہے، زانی کے اصول و فروع،  چاہے نسب کی وجہ سے ہوں یا رضاعت کی وجہ سے ان پر زانیہ حرام ہے اور زانیہ کے اصول و فروع،  چاہے وہ نسب سے ہوں یا رضاعت کی وجہ سے ، یہ سب زانی پر حرام ہیں جیسے کہ حلا ل وطی کی وجہ سے ہوتاہے ۔(ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب النکاح،  ج03،ص32، مطبوعہ بیروت، ملتقطاً)

   فتاوٰی عالمگیری  میں ہے:فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت ، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا ، كذا في فتح القدیریعنی جس نے کسی عورت کے سے  زنا کیا تو اس عورت کی ماں  اوپر  تک زانی پر حرام  ہے ، یونہی اس عورت کی بیٹی  نیچے تک زانی پر حرام ہے ۔ اسی طرح زانیہ  پر زانی کے آباؤ و اجداد اوپر تک اور بیٹے نیچے تک حرام ہوجائیں گے، جیسا کہ فتح القدیر میں مذکور ہے۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب النکاح،  ج01، ص274، دار الفكر، بيروت)

   فتاوٰی یورپ میں ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے: ”مزنیہ کی لڑکی خواہ کسی کے نطفہ سے ہو،  زانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔(فتاوٰی  یورپ، ص 428، مکتبہ جامِ نور، دہلی)

   مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”زید نے عابدہ سے ہم بستری کی، عابدہ اپنی لڑکی کی شادی زید سے کرنا چاہتی ہے، عابدہ کا شوہر بکر ہے، کیا عابدہ کی لڑکی کا نکاح زید کے ساتھ جائز ہے؟ اگر نہیں تو کوئی دوسری صورت ہے۔ عابدہ کی لڑکی کا نکاح زید سے کیا جاسکتا ہے؟ آپ  علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں: ”صورتِ مسئولہ میں عابدہ کی لڑکی کی شادی اس کے ساتھ زنا کرنے والے سے کسی صورت میں نہیں ہوسکتی ۔“(فتاوٰی  بحر العلوم ، ج 02، ص 521، شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم