Kya Bahu Ka Apne Sautele Susar Se Parda Hai ?

کیا سوتیلے سسر سے بھی عورت کا پردہ ہوگا ؟؟

مجیب:      ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12225

تاریخ اجراء:     07 ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/07جون 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، اب زید کی بیوی  کا زید کے سوتیلے باپ سے پردہ ہوگا یا نہیں؟؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً تو یہ یاد رہے کہ عورت کا حقیقی سسر یعنی شوہر کا باپ تو عورت کا محرم ہوتا ہے اور یہ حرمت صرف نکاحِ صحیح سے ہی ثابت ہوجاتی ہے خواہ شوہر نے اس عورت سے دخول کیا ہو یا پھر دخول نہ کیا ہو، لیکن سوتیلا سسر عورت کا محرم نہیں بنتا کہ وہ شوہر کا باپ نہیں اس لیے یہاں حرمت کی کوئی وجہ نہیں۔ جیسا کہ فقہائے کرام کی تصریحات سوتیلی ساس چونکہ بیوی کی ماں نہیں ہوتی اسی لیے اس کی حلت میں کوئی شبہہ نہیں۔

   لہذا  پوچھی گئی صورت میں   زید کی بیوی کا زید کے سوتیلے باپ سے پردہ کرنا شرعاً  واجب ہے کہ وہ اس کے لیے نامحرم ہے، بلکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق عورت کو اجنبی نامحرم کے مقابلے میں نامحرم  رشتہ دار سے پردہ کرنے کی اور بھی زیادہ تاکید ہے۔

   شوہر کا حقیقی باپ عورت کا محرم ہوتا ہےخواہ شوہر نے دخول کیا ہو یا دخول نہ کیا ہو۔ جیسا کہ النتف فی الفتاوٰی میں مذکور ہے:وأما الصهر فهم أربعة اصناف أحدهم ابو الزوج والجدود من قبل ابويه وان علوا يحرمون على المرأة وتحرم هي عليهم دخل بها أو لم يدخل بهایعنی بہر حال سسرالی رشتے سے چار اقسام حرام ہیں، ان میں سے پہلی قسم  شوہر کا باپ اور باپ کی طرف سے شوہر کے آباء و اجداد ہیں اگر چہ اوپر تک ہوں کہ یہ سب عورت پر حرام ہوتے ہیں اور عورت ان پر حرام ہے خواہ شوہر نے اس عورت سے دخول کیا ہو یا دخول نہ کیا ہو۔ “ (النتف فی الفتاوٰی، ج 01، ص 254، دار الفرقان، بیروت لبنان)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال ہواجواپنے سُسرکے انتقال کے بعداپنی سوتیلی ساس سے نکاح کرناچاہتاتھاتواس کے جواب میں آپ علیہ الرحمہ نے ارشادفرمایا:’’نکاح مذکورجائزہے قال اللہ عزوجل:واحل لکم ماورآءذلکم۔علماءقاطبہ متون وشروح وفتاوی میں محرماتِ صہریہ زوجات ِاصول وفروع، اصولِ وفروعِ زوجات بتاتے ہیں نہ زوجہ ِاصولِ زوجہ،،اورسوتیلی ماں لفظ امھات میں ہرگزداخل نہیں،،اصل یہ ہے کہ ساس کی حرمت اس وجہ سے نہیں کہ وہ خسرکی زوجہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ زوجہ کی ماں ہے ، سوتیلی ساس میں یہ وجہ نہیں لہذااس کی حلت میں کوئی شبہہ نہیں ۔مسئلہ واضح ہے اورحکم ظاہر۔(فتاوٰیرضویہ،ج11،ص312،رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   عورت کا نامحرموں سے پردہ کرنا واجب ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”جو محرم نہیں وہ اجنبی ہے اس سے پردہ کا ویسا ہی حکم ہے جیسے اجنبی سے خواہ فی الحال اس سے نکاح ہوسکتا ہو یا نہیں۔“(فتاوی رضویہ، ج11، ص414، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے  ہیں:ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقا واجب؛ اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب، اگر کریگی گنہگار ہوگی؛ اور محارم غیر نسبی مثل علاقہ مصاہرت ورضاعت ان سے پردہ کرنا اورنہ کرنادونوں جائز۔ مصلحت وحالت پرلحاظ ہوگا۔“(فتاوی رضویہ، ج 22، ص 240، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

   اجنبی کے مقابلے میں نامحرم رشتہ داروں سے پردے کی تاکید بیان کرتے ہوئے  سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے  ہیں:”جیٹھ، دیور، پھپا، خالو، چچازاد، ماموں زاد پھپی زاد ، خالہ زاد بھائی سب لوگ عورت کے لئے محض اجنبی ہیں، بلکہ ان کاضرر نرے بیگانے شخص کے ضرر سے زائد ہے کہ محض غیر آدمی گھر میں آتے ہوئے ڈرے گا، اور یہ آپس کے میل جول کے باعث خوف نہیں رکھتے۔ عورت نرے اجنبی شخص سے دفعۃ میل نہیں کھا سکتی، اور ان سے لحاظ ٹوٹا ہوتاہے۔ لہذا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر عورتوں کے پاس جانے کو منع فرمایا، ایک صحابی انصاری نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جیٹھ دیور کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا: الحموا الموت، رواہ الحمد والبخاری عن عقبۃ بن عامر رضی اﷲ تعالی عنہ جیٹھ دیور تو موت ہیں۔“(فتاوی رضویہ ، ج 22، ص 217، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم