Kya Mamo Ki Poti Se Nikah Ho Sakta Hai?

کیا ماموں کی پوتی سے نکاح ہوسکتا ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12834

تاریخ اجراء:28شوال المکرم1444ھ/19مئی2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا ماموں کی پوتی سے نکاح ہوسکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ماموں کی پوتی ( ماموں زاد بھائی  کی بیٹی )کے ساتھ نکاح جائز ہے جبکہ حرمت کی کوئی اور وجہ مثلاً رضاعت وغیرہ نہ پائی جائے، کیونکہ قرآن عظیم میں جن عورتوں سے نکاح حرام قرار دیا گیا ہے ان کو واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے اور یہ لڑکی ان عورتوں میں سے نہیں۔

   نیز   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق چچا، تایا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کی اولاد، پھر آگے ان کی اولاد سے نکاح حلال ہے شرعاً اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔

   جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کے تفصیلی ذکر کے بعد ارشادِ باری تعالیٰ  ہے: ﴿ وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمترجمہ کنزالایمان: ”اور ان کے سوا جو، رہیں وہ تمہیں حلال ہیں۔“(القرآن الکریم،پارہ05،سورۃ النساء،آیت:24)

   فتاوٰی  شامی میں ہے :” تحل بنات العمات والاعمام والخالات والاخوال“ یعنی  پھوپھی، چچا، خالہ، ماموں کی بیٹیوں سے نکاح حلال ہے ۔(ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب النکاح، ج 04، ص 107، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”زید وعمر و حقیقی چچازاد بھائی ہیں اب عمرو کی دختر کے ساتھ نکاح کرناچاہتا ہے جائزہے یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”اپنے حقیقی چچاکی بیٹی یا چچا زاد بھائی کی بیٹی  یا غیر حقیقی دادا کی اگرچہ وہ حقیقی دادا کا بھائی ہو ، اور رشتے کی بہن جو ماں میں ایک نہ باپ میں شریک ، نہ باہم علاقہ رضاعت جیسے ماموں خالہ ، پھوپھی کی بیٹیاں ، یہ سب عورتیں شرعاً حلال ہیں جبکہ کوئی مانع نکاح مثل رضاعت ومصاہرت قائم نہ ہو۔قال ﷲ تعالٰی"وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم"اللہ تعالٰی نے فرمایا: محرمات کے علاوہ عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج11، ص413، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوٰی فقیہ ملت میں سوال ہوا کہ”ہندہ کے لڑکے کا نکاح اس کے بھائی کی پوتی سے جائز ہے یا نہیں؟“ اس کے جواب میں مذکور ہے:”نکاح مذکور بلا شبہہ جائز ہے اس لئے کہ جب ہندہ کے بھائی کی بیٹی سے اس کے لڑکے کا نکاح جائز ہے تو پوتی سے بدرجہ اولیٰ جائز ہے کہ وہ محرمات میں سے نہیں ہے۔ بشرطیکہ دودھ وغیرہ کا رشتہ کوئی وجہ مانع نکاح نہ ہو۔ خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم"۔“(فتاوٰی فقیہ ملت، ج01،ص399، شبیر برادرز، لاہور)

   فتاوٰی بحر العلوم میں ہے:”چچا کی لڑکی یا پوتی سے شادی ہوسکتی ہے۔“(فتاوٰی  بحر العلوم ، ج 02، ص 495، شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم