مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-12813
تاریخ اجراء:12شوال المکرم1444ھ/03مئی2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے
ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا رضاعی خالہ
سے نکاح جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رضاعی خالہ سے نکاح
حرام ہے کہ جورشتے نسب سے حرام ہیں ،
رضاعت سے بھی حرام ہیں، لہذا حقیقی خالہ کی طرح رضاعی
خالہ بھی محرمہ عورت ہے، اس سے نکاح
کرنا بھی ناجائز و حرام ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک
میں فرمایا :”وَاَخَوٰتُکُمۡ
مِّنَ الرَّضٰعَۃ۔“ترجمہ کنزالایمان:(حرام ہوئیں تم پر
)دودھ کی بہنیں۔(پارہ 04،سورۃ النساء،آیت نمبر 23)
مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی تفسیر
میں صدر الافاضل مولاناسید نعیم الدین مرادآبادی
علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”دودھ پلانے والی کو شیر
خوار کی ماں اور اس کی لڑکی کو شیر خوار کی بہن
فرمایا اسی طرح دودھ پلائی کا شوہر شیر خوار کا باپ اور
اس کا باپ شیر خوار کا دادا اور اس کی بہن اس کی پھوپھی
اور اس کا ہر بچہ جو دودھ پلائی کے سوا اور کسی عورت سے بھی ہو
خواہ وہ قبل شیر خواری کے پیدا ہوا یا اس کے بعد وہ سب اس
کے سوتیلے بھائی بہن ہیں اور دودھ پلائی کی
ماں شیر خوار کی نانی اور اُس کی بہن اُس کی
خالہ ۔“(تفسیر خزائن
العرفان، ص 160، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
جورشتے نسب سے حرام ہیں رضاعت سے
بھی حرام ہیں جیساکہ بخاری شریف میں ہے:”عن ابن عباس رضى الله عنهما قال قال النبى
صلى الله عليه وسلم يحرم من الرضاع
ما يحرم من النسب “ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن
عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت(دودھ کے رشتوں ) سے بھی حرام
ہو جاتے ہیں۔(صحیح البخاری، کتاب الشھادات، باب الشھادۃ علی
الانساب۔الخ، ج3، ص170، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)
فتاوٰی
عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں کچھ یوں مذکور
ہے:”وأخو
المرضعة خاله وأختها خالته“یعنی
دودھ پلانے والی عورت کا بھائی بچے کا ماموں کہلائے گا اور اس
کی بہن بچے کی خالہ کہلائے
گی۔ “(فتاوٰی عالمگیری، کتاب النکاح، ج
01، ص 343،مطبوعہ پشاور)
النتف فی الفتاوٰی میں مذکور ہے:”فاما الحرام المؤبد فعلی
وجھین احدھما نسب و الآخر سبب فاما النسب فھو الرحم المحرم و ھم اربعۃ
اصناف۔۔۔۔ الصنف الرابع: الاعمام
و العمات و الاخوال و الخالات۔۔۔۔۔۔ فأما
الرضاع فيحرم منه ما يحرم بالنسب من ذوی الرحم المحرم“ترجمہ: ”بہر حال
ابدی حرمت دو وجہوں سے ہوتی ہے ان میں سے ایک وجہ نسب ہے
جبکہ دوسری وجہ سبب ہے۔ نسب سے جو عورتیں حرام ہیں وہ ذو
رحم محارم عورتیں ہیں جن کی چار اقسام
ہیں۔۔۔۔چوتھی قسم: چچا، پھوپھی، ماموں
اور خالہ ہیں۔۔۔۔
رضاعت سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو ذو رحم محارم کےرشتے نسب سے حرام ہوتے
ہیں۔ “ (النتف فی
الفتاوٰی، ص 253، دار الکتب العلمیۃ، بیروت،
ملتقطاً)
فتاوٰی رضویہ میں
ہے:”سوتیلی خالہ کہ حرام ہے اس کے معنی حقیقی
یارضاعی ماں کی سوتیلی بہن ۔“ (فتاوٰی رضویہ،ج11،
ص340، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟