Kya Sotele Bhai Behan Aapas Mein Mehram Hote Hain?Kya Unke Darmiyan Parda Nahi Hota?

کیا سوتیلے بھائی بہن آپس میں محرم ہوتے ہیں؟ کیا ان کے مابین پردہ نہیں ہوتا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13211

تاریخ اجراء:20جمادی الثانی1445ھ/03جنوری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے دو شادیاں کی ہوئی ہیں، میری پہلی بیوی میں سے پانچ بچے ہیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد میں نے دوسری شادی ایک مطلقہ عورت سے کی جس کے سابقہ شوہر سے دو لڑکے ہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا  ہے کہ کیا میرے سگے بچے  یعنی بیٹیاں اور دوسری بیوی کے لڑکے آپس میں محرم ہیں یا نہیں؟ اگر محرم نہیں تو کیا ان کا آپس میں پردہ بھی ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں آپ کی بیٹیاں اور دوسری بیوی کے لڑکے آپس میں نامحرم ہیں کہ یہ بھائی بہن نہ تو باپ شریک ہیں اور نہ ہی ماں شریک ہیں، لہذا ان کی آپس میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں۔ البتہ ہمارے یہاں احتراماً رشتے کی بہن یا رشتے کا بھائی کہہ دیا جاتا ہے،  لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب ان کے آپس کے معاملات سگے بہن بھائی والے ہوجائیں۔

   یاد رہے کہ جس سے نکاح ہو سکتا ہے وہ محرم نہیں ہوتا اور جو نامحرم ہو ، اس سے پردہ ضروری  ہوتا ہے ، لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کی دونوں لڑکیوں کا اپنے سوتیلے بھائیوں سے پردہ ہوگا۔

   محارم عورتوں کے ذکر کے بعد ارشادِ باری تعالیٰ ہے:” وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ“ترجمہ کنزالایمان:”اور اُن کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں۔“(القرآن الکریم: پارہ05،سورۃ النساء،آیت 24)

    رشتے کی بہن جو ماں باپ میں شریک نہ ہو اُس کے نامحرم ہونے سے متعلق  فتاویٰ رضویہ میں ہے:” رشتے کی بہن جو ماں میں ایک نہ باپ میں شریک ، نہ باہم علاقہ رضاعت جیسے ماموں خالہ ، پھوپھی کی بیٹیاں ، یہ سب عورتیں شرعاً حلال ہیں جبکہ کوئی مانع نکاح مثل رضاعت ومصاہرت قائم نہ ہو۔قال ﷲ تعالٰی"وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم"اللہ تعالٰی نے فرمایا: محرمات کے علاوہ عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج11، ص413، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

    صدر الشریعہ  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”ایک شخص کا نکاح ایک بیوہ عورت سے ہوا تھا، اس عورت کا ایک لڑکا اگلے مرد سے ہے اور اب جس مرد سے نکاح کیا، اس مرد کی پہلی عورت سے ایک لڑکی ہے،  اب دونوں لڑکے لڑکی باہم نکاح کرنا چاہتے ہیں تو یہ درست ہے یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”ان دونوں کا باہم نکاح ہوسکتا ہے کہ دونوں کا نہ ایک باپ ہے نہ ایک ماں،قال اللہ تعالیٰ"وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم"۔“(فتاوٰی امجدیہ، ج02، ص 55، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   مفتی جلال الدین  علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”مدخولہ بیوی کی اولاد جو دوسرے شوہر سے ہو ان سے اپنی اولاد کے نکاح کرنے میں شرعاً کوئی خرابی نہیں۔“(فتاوٰی فیض رسول،  ج 01، ص 571، شبیر برادرز،  لاہور)

   عورت کا نامحرموں سے پردہ کرنا واجب ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”جو محرم نہیں وہ اجنبی ہے ، اس سے پردہ کا ویسا ہی حکم ہے جیسے اجنبی سے ، خواہ فی الحال اس سے نکاح ہوسکتا ہو یا نہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج11، ص415، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

    مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے  ہیں:”ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقا واجب ۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 240، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

   اجنبی کے مقابلے میں نامحرم رشتہ داروں سے پردے کی تاکید بیان کرتے ہوئے  سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے  ہیں:”جیٹھ، دیور، پھپا، خالو، چچازاد، ماموں زاد پھپی زاد ، خالہ زاد بھائی ، یہ سب لوگ عورت کے لئے محض اجنبی ہیں، بلکہ ان کاضرر نرے بیگانے شخص کے ضرر سے زائد ہے کہ محض غیر آدمی گھر میں آتے ہوئے ڈرے گا، اور یہ آپس کے میل جول کے باعث خوف نہیں رکھتے۔ عورت نرے اجنبی شخص سے دفعۃ میل نہیں کھا سکتی، اور ان سے لحاظ ٹوٹا ہوتاہے۔ لہذا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر عورتوں کے پاس جانے کو منع فرمایا، ایک صحابی انصاری نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جیٹھ دیور کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا: الحمو الموت، رواہ احمد والبخاری عن عقبۃ بن عامر رضی ﷲ تعالی عنہ جیٹھ دیور تو موت ہیں۔“(فتاوٰی رضویہ ، ج 22، ص 217، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم