Kya Soteli Bhatiji Ki Beti Mehram Hai?

کیا سوتیلی بھتیجی (یعنی باپ شریک بھائی کی بیٹی) کی بیٹی محرم ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12827

تاریخ اجراء:24شوال المکرم1444ھ/15 مئی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا سوتیلی بھتیجی (یعنی باپ شریک بھائی  کی بیٹی) کی بیٹی  بھی محارم  عورتوں میں داخل ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بھتیجی محرمات میں داخل ہے ، اس کی حرمت نصِ قطعی سے ثابت ہے اور فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اس حرمت میں بالاجماع بھتیجی کی اولاد در اولاد نیچے تک شامل  ہے ۔  یہ سب چچا پر حرام ہیں، لہذا سوتیلی بھتیجی (یعنی باپ شریک بھائی کی بیٹی) کی بیٹی بھی محارم  عورتوں میں داخل ہے کہ بھائی ، سگا ہو یا ماں شریک یا باپ شریک وہ بھائی ہی ہوتا ہے  ، اس سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔لہذا ان کی اولاد بھی حرام ہوگی۔

    سوال میں جو باپ  شریک بھائی کی  بیٹی کی بیٹی کے متعلق پوچھا گیا یہ بھی محرمہ عورت  ہے اور اس سے نکاح جائز نہیں ہے ۔

    جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کو بیان کرتےہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَ  بَنٰتُ  الْاَخِ وَ  بَنٰتُ  الْاُخْتِ ترجمہ کنزالایمان: حرام ہوئیں تم پر بھتیجیاں اور بھانجیاں ۔(القرآن الکریم،پارہ04،سورۃ النساء،آیت:23)

    اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان  میں ہے:” یہ سب سگی ہوں یا سوتیلی ۔(تفسیرِ خزائن العرفان، ص 160، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    بدائع الصنائع میں مذکور ہے:قوله تعالى:{وَ  بَنٰتُ  الْاَخِ وَ  بَنٰتُ  الْاُخْتِ}وبنات بنات الأخ والأخت وإن سفلن بالإجماع “ یعنی ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ "حرام ہوئیں تم پر بھتیجیاں اور بھانجیاں" اس حرمت میں بالاجماع بھائی اور بہن کی بیٹی کی اولاد نیچے تک داخل ہے ۔(بدائع الصنائع، کتاب النکاح، ج 02، ص 257،   بيروت)

    فتاوٰی رضویہ میں ہے : لاجرم کتب تفسیر میں اسی آیت کریمہ سے بھائی بہن کی پوتی  نواسی کا حرام ابدی ہونا ثابت فرمایا اور کتب فقہ میں انھیں بھتیجی بھانجی میں داخل مان کر محارم ابدیہ میں گنایا، معالم التنزیل میں ہے: "یدخل فیھن بنات اولادالاخ والاخت وان سفلن"یعنی ان محرمات ابدیہ میں بھائی اور بہن کی اولاد کی بیٹیاں خواہ نیچے تک ہوں ، داخل ہیں ۔“(فتاوٰی رضویہ،ج11،ص406، رضا فاونڈیشن،لاہور)

    ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:”جیسے بھتیجی بھانجی ویسے ہی ان کی اور بھتیجوں اور بھانجوں کی اولاد، اور اولاد در  اولاد کتنی ہی دور سلسلہ جائے ، سب حرام ہیں، بنات پوتیوں نواسیوں دور تک کے سلسلے سب کوشامل ہے ۔۔۔۔۔ فرمایا: " وَ  بَنٰتُ  الْاَخِ وَ  بَنٰتُ  الْاُخْتِ  تم پر حرام کی گئیں بھائی کی بیٹیاں اور بہن کی بیٹیاں۔"  ان میں بھی بھائی بہن کی پوتی، نواسی، پرپوتی، پر نواسی جتنی دورہوں سب داخل ہیں ۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج11، ص447، رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

    بہارِ شریعت میں ہے:” بھتیجی ،بھانجی سے بھائی ،بہن کی اولادیں مراد ہیں، ان کی پوتیاں، نواسیاں بھی اسی میں شمار ہیں۔ “(بہارِ شریعت، ج 02، ص 22، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم