Larki Ke Nikah Ke Waqt Waldiyat Mein Palne Wale Ka Naam Lena

لڑکی کے نکاح کے وقت ولدیت میں پالنے والے شخص کا نام لینا

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1125

تاریخ اجراء: 17جمادی الاول1445 ھ/02دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص نے کسی کی لڑکی گودلی اوراس کی پرورش کی اورولدیت میں اپنانام لکھا، کیا اب نکاح کرتے وقت ولدیت کے طورپراس کانام لیاجاسکتاہے ؟اس طرح کرنے سے نکاح پرکوئی اثرپڑے گایانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نکاح صحیح ہونے کے لیے دولہااوردولہن کا ایک دوسرے اورگواہوں کے نزدیک صرف معین وممتازہوجاناکافی ہے اورچونکہ نکاح کی وکالت لیتے وقت دلہن خودموجودہونے کی وجہ سے معین ہوتی ہے لہذااس وقت نام لیناضروری نہیں ، البتہ دولہاسے ایجاب کرواتے وقت دلہن کی تعیین ضروری ہے اوریہ ضروری نہیں کہ جن کی ولدیت سے دلہن مشہورہے اسی کانام لیاجائے بلکہ یوں بھی ایجاب کروایاجاسکتاہے کہ فلاں نام کی لڑکی جس سے آپ کارشتہ طے ہوا تھا یااس جیسے دیگرالفاظ کے ذریعے دلہن کومعین کرکے ایجاب کروایاجاسکتاہے ۔

   یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہے کہ بچہ ہویابچی اس کے غیرباپ کی طرف منسوب کرنا، ناجائزوحرام ہے لہٰذانکاح نامہ اوردیگرکاغذات میں بطورولدیت کے حقیقی والدکاہی نام لکھنالازم ہے ،البتہ سرپرست کے طورپر پالنے والایاگودلینے والے کانام لکھاجاسکتاہے ۔

   ردالمحتارمیں ہے ’’وظاھرہ انھالوجرت المقدمات علی معینۃ وتمیزت عندالشھودایضایصح العقد، لان المقصودنفی الجھالۃ وذلک حاصل بتعینھاعندالعاقدین والشھودوان لم یصرح باسمھا،،ویویدہ ماسیاتی من انھالوکانت غائبۃ وزوجھاوکیلھا:فان عرفھاالشھودوعلمواانہ ارادھاکفی ذکراسمھا،والالابدمن ذکرالاب والجدایضا۔‘‘ یعنی اگرنکاح کے مقدمات کسی معین عورت سے عقدپرواقع  ہوئے اورگواہوں کے نزدیک بھی عورت  کی پہچان ہوگئی تو عقد درست ہوجائے گاکیونکہ مقصود جہالت کی نفی ہے عاقدین اورگواہوں کے نزدیک عورت کے متعین ہونے سے جہالت کی نفی حاصل ہوگئی اگرچہ عورت کے نام کی صراحت نہ بھی کی ۔اور اس کی تائیدآنے والے کلام سے ہوتی ہے کہ اگرعورت غائب ہے اور عورت کے وکیل نے اس کانکاح کیاتواگرگواہوں نے عورت کوپہچان لیااورجان گئے کہ کونسی عورت کاارادہ کیا تواس عورت کانام ذکرکرناکافی ہے ورنہ باپ اورداداکاذکرکرنابھی ضروری ہے ۔(ردالمحتار،جلد4، صفحہ87،مطبوعہ: کوئٹہ )

   اسی میں ہے ’’الحاصل :ان الغائبۃ لابدمن ذکراسمھاواسم ابیھاوجدھاوان کانت معروفۃ عند الشھودعلی قول ابن الفضل ، وعلی قول غیرہ :یکفی ذکراسمھاان کانت معروفۃ عندھم ، والافلا، وبہ جزم صاحب الھدایۃ فی التجنیس وقال :لان المقصودمن  التسمیۃ التعریف وقدحصل ، واقرہ فی الفتح والبحر‘‘یعنی حاصل کلام یہ ہے کہ ابن فضل کے قول کے مطابق غائب عورت کانام اوراس کے والد،داداکانام ذکر کرناضروری ہے اگرچہ گواہ عورت کوجانتے ہوں جبکہ دیگرکے قول کے مطابق گواہوں کے نزدیک عورت معروف ہوتو فقط اس کا نام ذکرکرناکافی ہےورنہ نہیں ، صاحب ھدایہ نے تجنیس میں اس قول پر جزم کیااور فرمایا:کیونکہ نام لینے سے مقصودپہچان ہے اوروہ حاصل ہوچکی ہے ،فتح القدیراوربحرمیں اس قول کوبرقراررکھا گیا ہے ۔(ردالمحتار،جلد4، صفحہ98،مطبوعہ :کوئٹہ )

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہواکہ : ہندہ کی صحیح ولدیت زیدہے مگربوقت نکاح بکرقائم کرکے ایجاب وقبول ہواتوایسانکاح درست ہوایانہیں ؟توجوابا ارشاد فرمایا :’’ اگربکرنے اسے پرورش یا متبنی کیا تھا اور وہ عرف میں ہندہ بنت بکر کہی جاتی ہے اور اس کے کہنے سے اس کی طرف ذہن جاتا ہے تونکاح ہوگیا۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد11،صفحہ250،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مفتی وقارالدین قادری رضویہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’نکاح کی صحت کے لیے دونوں کاایک دوسرے کے نزدیک متعارف ہوناشرط ہے ۔لہذالڑکی سے جب وکالت حاصل کی جائے گی اوروکیل خاص شوہرکوبتائے گا، تولڑکی جس نام سے مشہورہے اورپہچانی جاتی ہے ،،،،اگر اپنے اصل باپ کی نسبت سے مشہورہے تو اس کا نام لے کرقبول کرلیاجائے ۔نکاح نامہ میں اصل باپ کانام لکھاجائے اورسوتیلے باپ کی پرورش کردہ بیٹی لکھ دیاجائے ۔‘‘(وقارالفتاوی ،جلد3،صفحہ40،بزم وقارالدین، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم