Miya Biwi Ka Aik Dosre Ko Bhai Behan Kehna Kaisa ?

میاں بیوی کا ایک دوسرے کو بھائی، بہن کہنا کیسا ؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2553

تاریخ اجراء:       22ذوالحجۃ الحرام 1443  ھ/22 جولائی2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین  ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کوہنسی مذاق میں بھائی بہن کہہ دیں جیسے بعض اوقات شوہر کے منہ سےبہن  نکل جائےیا بیوی کے منہ سے بھائی نکل جائے،   تو کیا اس سے نکاح پر کوئی اثر پڑتا ہے؟سناہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے  اپنی زوجہ محترمہ کو بہن کہا تھا ۔اس کی کیا حقیقت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شوہر کا اپنی بیوی کو   ماں ،بہن ،بیٹی کہہ کر پکارنا یا یوں کہنا کہ تم میری ماں،بہن ،باجی ہو،یا بیوی  شوہر کو بھائی کہے، تو یہ سب صورتیں حرام ہیں ،جن  سے توبہ کرنا  اس پر لازم ہے، البتہ اس سے  نکاح پر کچھ اثر نہیں پڑتااور جہاں تک  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو  اپنی بہن کہہ کر پکاراتھا، تو اس کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے  ایسا مجبوری کے تحت  توریہ کے طور پر کیا تھا ،کیونکہ آپ کو ایک ظالم بادشاہ نے پکڑ لیا تھا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ جس مسافر کی بیوی خوبصورت دیکھتا ،اسے طلاق دلوا کر خود قبضہ کرلیتا تھا، اگر شوہر طلاق نہ دیتا، تو اسے قتل کردیتا تھا، البتہ بھائی سے بہن کو نہیں چھینتا تھا ،اس لیے آپ نے فرمایا تھا کہ یہ میری بہن ہیں اور مراد یہ لی تھی کہ دِین شریک بہن ہیں۔

   سنن ابوداؤد شریف میں ہے:’’ ان رجلا   قال لامرتہ  ،یا اخیۃ  ،فقال  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   :اختک  ھی  ،فکرہ   ذلک و نھی عنہ “یعنی  ایک شخص نے   اپنی بیوی  کو  اے میری بہن ! کہہ کر  پکارا،  تو  رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نےفرمایا  کیا  یہ تیر ی بہن ہے ؟ اسے    ناپسند  فرمایا اور اس سے منع کیا ۔(سنن ابوداؤد ،کتاب الطلاق ،جلد 1،صفحہ319 ،حدیث2210،مطبوعہ لاھور )

   بیوی کو بہن کہنے کے بارے میں سیدی  اعلی حضرت ،امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فتاویٰ رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں:’’ زوجہ کو ماں بہن کہنا خواہ یوں کہ اسے ماں بہن کہہ کر پکارے ، یا یوں کہے ،تو میری ماں،میری بہن ہے سخت گناہ و ناجائز ہے ، مگر اس سے نہ نکاح میں خلل آئے ،نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو ۔‘‘( ملخص از فتاویٰ رضویہ ،جلد13، صفحہ280، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھو ر )

   فتاویٰ امجدیہ میں ہے:”یہ لفظ کہ وہ میری بہن ہے ،کہنا مکروہ و بُرا ہے، مگر اس سے طلاق یا ظِہار نہیں ہوتا ، کہ اس کے لیے تشبیہ کا لفظ ہونا ضروری ہے ۔(فتاویٰ امجدیہ ، جلد2 ، صفحہ 284 ، مطبوعہ کراچی)

   حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو بہن کہنے کے  متعلق سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” اپنی عورت کو ماں یا بہن کہنا کہ اس کا نام رکھنے سے نہ وہ حقیقۃً اس کی ماں  بہن ہوجائے گی، نہ اس کی مقاربت میں ا س پر اصلاً کوئی مواخذہ کہ اس کہنے سے وہ اس پر حرام نہ ہوگئی، ہاں  صرف اتنی قباحت ہوگی کہ اس نے بے کسی ضرورت و مصلحت کے ایک جائز حلال شے کو حرام نام سے تعبیر کیا، کما قال اﷲ تعالٰی﴿ وَ اِنَّہُمْ لَیَقُوۡلُوۡنَ مُنۡکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوۡرًاجیساکہ اﷲ تعالیٰ  نے فرمایا: اور بیشک وہ بری بات اور جھوٹ کہتے ہیں ۔ پھر اگر مصلحت ہو، تو یہ قباحت بھی نہ رہے گی” کقول سیدنا ابراھیم علیہ السلام لسیدتنا سارۃ رضی ﷲ تعالی عنھا انھا اختی“ جیسا کہ سیدتنا حضرت سارہ رضی اﷲ تعالیٰ  عنہا کے بار ے میں  سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام  کا فرماناکہ بیشک یہ میری بہن ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ، جلد17 ، صفحہ312،313، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کااپنی زوجہ حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکوبہن کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”توریہ سے مراد یہ ہےکہ ذو معنی والا لفظ بول کر بعید معنی مراد لینا ،ضرورت کے وقت توریہ بالکل جائز ہے۔  اس کا واقعہ یہ ہوا کہ حضرت خلیل اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ عراق سے شام کی طرف براستہ مصر ہجرت کرکے جارہے تھے کہ مصر سے گزرے،وہاں کا قِبْطِی بادشاہ صادق ابن صادون بڑا ظالم تھا،جس مسافر کی بیوی خوبصورت دیکھتا ،اسے طلاق دلوا کر خود قبضہ کرلیتا تھا، وہاں یہ واقعہ پیش آیا،اس ظالم نے پہلے تو آپ کو بلایا تاکہ آپ سے طلاق حاصل کرکے حضرت سارہ پر قبضہ کرے،آپ نے فرمایا کہ یہ بی بی صاحبہ میری بہن ہیں،وہ بے دین بھائی سے بہن کو نہیں چھینتا تھا، بلکہ خاوند سے بیوی کو طلاق دلواتا تھا ،اگر طلاق نہ دیتا، تو اسے قتل کردیتا تھا،آپ بہ تعلیم الٰہی اس کا یہ اصول جانتے تھے۔آپ سارہ کے پاس آئے ان سے فرمایا کہ یہ ظالم اگر جان لے گا کہ تم میری بیوی ہو، تو یہ تمہارے متعلق مجھ پر غلبہ کرلے گا ،اس طرح کہ مجھ سے تمہیں بذریعہ طلاق لے لے گا یا مجھے قتل کرا دے گا، اگر وہ تم سے پوچھے ،تو اسے بتانا کہ تم میری بہن ہو، کیونکہ تم میری اسلامی بہن ہو ،مردوں میں حضرت یوسف علیہ السلام بڑے حسین تھے اور عورتوں میں حضرت سارہ بڑی حسینہ تھیں، بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن حضرت سارہ کی میراث تھا۔حضرت سارہ ہاران کی بیٹی تھیں،ہاران اور آذر دونوں آپ کے چچا تھے،والد تارخ تھے، جو مؤمن تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ ضرورۃً اپنی بیوی کو بہن کہنا جائز ہے، اس سے ظہار نہیں ہو جاتا ۔“(مراٰۃ المناجیح ، جلد7 ، صفحہ409 تا411 ، مطبوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم