Shadi Karte Hue Zaat Dekhne Ka Islam Mein Kya Hukum Hai ?

شادی کرتے ہوئے ذات دیکھنے کے متعلق اسلام میں کیا حکم ہے؟

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1633

تاریخ اجراء:11ذوالقعدۃالحرام1445 ھ/20مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   شادی کے سلسلے میں ذات دیکھنے کے حوالے سے اسلام میں کیا حکم ہے؟ والدین کہتے ہیں کہ ذات دیکھنا ضروری ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ذات برادری اور قومیں قبیلے وغیرہ ہماری پہچان اور نسب کی حفاظت کے لئے ہیں اور یہ بذاتِ خود کوئی معیارِ فضیلت نہیں ہیں بلکہ قرآنِ پاک نے افضلیت و شرافت کا معیار تقوی و پرہیز گاری ارشاد فرمایا ہے۔ لہذا اگر کوئی کسی نچلی برادری سے تعلق رکھنے والا صاحبِ علم و عمل اور نیک پرہیز گار ہے ،تو وہ اونچی برادری کے بدعملوں سے کئی گنا بہتر اور افضل ہے۔ برادری کی بنا پر کسی کو حقیر جاننا شرعاً ناجائز و حرام ہے۔ تاہم کفو کی حکمت و مصلحت، نیز قوموں کے رویوں کے اختلاف، برادریوں کی جُدا جُدا عادات، طرزِ معاشرت کی تبدیلی اور مزاجوں کے افتراق وغیرہ کی وجہ سے ہماری شریعتِ مطہرہ نے شادی بیاہ کے معاملے میں کفو کا اعتبار کرنے میں برادری کا بھی لحاظ فرمایا ہے۔

   اللہ تعالی فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳)ترجمۂ کنزالعرفان: اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو۔ بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے۔ بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔(سورۃالحجرات:آیت13)

   مسئلہ کفوکثیر حکمتوں اور معاشرتی مصلحتوں پر مشتمل ہے۔ کفو یہ ہے کہ دِین ، نسب (یعنی ذات برادری)، پیشے یا چال چلن وغیرہ میں مرد عورت سے اتنا کم تر نہ ہو کہ اس سے نکاح اس عورت اور اس کے ولی و سرپرست کے لیے باعثِ ننگ و عار ہو۔ اس میں جہاں ایک طرف عورت کے اولیا کی عزت کا لحاظ ہے، وہیں اس میں عورت کے لیے ان تحفظات کا پاس ہے کہ اسے کسی ایسے کم حیثیت شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی اذیت سے نہ گزرنا پڑے جو اس کے معیارِ حیات سے پست تر ہو۔ یوں کفو کے ساتھ نکاح میں اس کی شوہر کے ساتھ ہم آہنگی و موانست رہتی اور شوہر کی اتباع و موافقت میں حتی الامکان کوئی بات آڑے نہیں آتی۔  یہ وہ امر ہے جو خوش گوار خانگی حیات کا جُزوِ لازم ہے، اس لیےاسلام نے نکاح میں کفو کا معاملہ رکھا اور یہ بھی صرف مرد کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے کہ عورت کواس کے گھر جانا ہوتا ہے ، اس میں بھی لڑکی اور اس کے ولی کی مرضی ہے اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں شادی کرنے میں کوئی مسئلہ نہ ہو گا، تو وہ آپس میں نکاح کر سکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔

   تنویر الابصار اور در مختارمیں ہے:’’(الکفاءۃ معتبرۃ من جانبہ) ای الرجل لان الشریفۃ تابی ان تکون فراشا للدنی (لا من جانبھا)‘‘ ترجمہ:کفاءت  مرد کی جانب سے معتبر ہے،کیونکہ شریف عورت گھٹیا شخص کا فرش بننے سے انکار کرتی ہے۔ عورت کی جانب سے معتبر نہیں۔(درمختار مع ردالمحتار۔ملتققطا،جلد4،صفحہ194،مطبوعہ: کوئٹہ)

   ردالمحتار میں اس کے تحت ہے:’’ای یعتبر ان یکون الرجل مکافئا لھا،ولا تعتبر من جانبھا بان تکون مکافئۃ لہ، بل یجوز ان تکون دونہ‘‘ترجمہ: یعنی مرد کا عورت کے ہم پلہ ہونے کا اعتبار ہے، اور عورت کی جانب سے کفاءت معتبر نہیں،  اس طرح کہ عورت کا مرد کے ہم پلہ ہونا  ضروری ہو، بلکہ عورت کا مرد سے کم تر ہونا بھی جائز ہے۔( ردالمحتار۔ملتقطاً،جلد4،صفحہ194،مطبوعہ: کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم