Taya Ki Beti Ya Taya Ki Nawasi Se Nikah Karne Ka Hukum

تایا کی بیٹی یا نواسی سے نکاح کا حکم

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1569

تاریخ اجراء:09رمضان المبارک1445 ھ/20مارچ2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرے تایا ابو کی بیٹی ہے،اس کی ایک بیٹی ہےیعنی میرے تایا کی نواسی،میں اس سے نکاح کرنا چاہتاہوں، کیا میرا اس سے نکاح کرنا، جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تایا کی  بیٹی سے بھی نکاح جائز ہے اور تایا کی نواسی سے بھی نکاح جائز ہے جبکہ حرمت کی کوئی اور وجہ  مثلاً مصاہرت ، رضاعت  وغیرہ  قائم نہ ہو، کیونکہ قرآن عظیم میں جن عورتوں سے نکاح حرام قرار دیا گیا ہے ان کو واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے اور یہ لڑکی ان عورتوں میں سے نہیں ہے۔

   نیزفقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق چچا، تایا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کی اولاد، پھر آگے ان کی اولاد سے نکاح حلال ہے شرعاً اس میں کوئی حرج والی بات نہیں  ہے ۔

   جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کےتفصیلی ذکر کے بعد ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمترجمہ کنزالایمان: اور ان کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں۔(القرآن الکریم،پارہ05،سورۃ النساء،آیت:24)

   فتاوٰی شامی میں ہے :” تحل بنات العمات والاعمام والخالات والاخوال“ یعنی پھوپھی، چچا، خالہ، ماموں کی بیٹیوں سے نکاح حلال ہے۔(ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب النکاح، جلد 04، صفحہ 107، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا :”زید وعمر و حقیقی چچازاد بھائی ہیں اب عمرو کی دختر کے ساتھ نکاح کرناچاہتا ہے جائزہے یا نہیں؟“ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ”اپنے حقیقی چچاکی بیٹی یا چچا زاد بھائی کی بیٹی شرعاً حلال ہیں جبکہ کوئی مانع نکاح مثل رضاعت ومصاہرت قائم نہ ہو۔قال ﷲ تعالیٰ"وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُم"اللہ تعالیٰ نے فرمایا: محرمات کے علاوہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد11، صفحہ412، رضافاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)

   خلیلِ ملت مفتی خلیل میاں برکاتی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” جس طرح چچا تایا کی بیٹی حلال ہے یوہیں چچا زاد تایازاد بھائی کی بیٹی بھی حلال ہے جبکہ کوئی اور مانعِ نکاح موجود نہ ہو۔ درِ مختار میں ہے: "حلال بنت عمہ و عمتہ و خالہ و خالتہ"۔“(فتاوٰی  خلیلیہ،جلد 01، صفحہ 551، ضیاءالقرا ن، ملخصاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم