Waldain Ka Beti Ki Shadi Uski Razamandi Ke Baghair Karwana

والدین کا بیٹی کی شادی اس کی رضا مندی کے بغیر کروانا

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-959

تاریخ اجراء:01ذوالقعدۃالحرام1444ھ/22مئی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا والدین اپنی بیٹی کی شادی اس کی رضا مندی کے بغیر کرسکتے ہیں ؟ اگر بیٹی ابھی شادی کیلئے راضی نہ ہو رہی ہو،تو کیا والدین اس کی شادی کرسکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاد جب بالغ ہوجائے تو والدین پر جو  سب سے پہلی اور اہم  ذمہ داری  عائد ہوتی ہے  وہ یہ ہے کہ کسی  مناسب جگہ اس کی شادی کردیں بالخصوص لڑکی سے متعلق تو اسلامی تعلیمات ہی یہی ہیں کہ اس کا کوئی ہم کفو لڑکا مل جائے، تو اس کا نکاح کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

   چنانچہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور جانِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم نے ان سے  ارشاد فرمایا: ’’ يا علي!  ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفؤا‘‘ ترجمہ:  اے علی (رضی اللہ عنہ) ! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: (1)نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے،(2) جنازہ میں جب آجائے، او ر (3)عورت (کے نکاح میں ) جب تمہیں اسکا کوئی کفو (ہمسر) مل جائے۔(سنن ترمذی، جلد1، صفحہ 213، مطبوعہ، بیروت)

   لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب والدین لڑکی کی  شادی کروانا چاہتے ہوں،تو لڑکی کو چاہیئے کہ اس اہم امرکی تکمیل میں ان کا ساتھ دے ۔   ہاں اگر رشتے پر کوئی اعتراض ہے ،تو والدین سے بات چیت کرکے اس معاملہ کو حل کیا جائے ۔

   مطلقاً بلا وجہِ شرعی شادی سے ہی منع کرنا مناسب نہیں ہے   کہ  حضور جانِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ  وسلم نے   جن چیزوں کو سنت کا درجہ عطا  فرمایا ہے  ان  میں سے ایک نکاح بھی ہے۔اسی طرح   آپ صلی اللہ علیہ  واٰلہٖ وسلم  نے ارشاد فرمایا: نکاح میری سنت ہے ۔ اور ارشاد فرمایا: جس نے نکاح کیا،  تو بیشک اس نے اپنا آدھا ایمان بچا لیا ، اب باقی آدھے میں اللہ سے ڈرے ۔ لہٰذا  اولاد کو چاہیئے والدین کی اطاعت کرتے ہوئے اس اہم ذمہ داری کی تکمیل میں ان کا ساتھ دے، ان کی بات کو رد نہ کرے بلکہ ان کی رضامندی کو مد نظر رکھتے ہوئے  جس مناسب جگہ وہ رشتہ کرنا چاہتے ہیں (اور عموماً والدین مناسب اور اچھی جگہ ہی اولاد کا رشتہ کروانے کے خواہاں ہوتے ہیں  )  اسے خوشی کےساتھ قبول کرلے۔

   بہرحال لڑکی بالغ ہو تو اس کی رضامندی کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا و الدین کو بھی چاہئے کہ زبردستی کرنے کی بجائے لڑکی کی بھی بات سن کر اسے اعتماد میں لےکر اس کی شادی کا فیصلہ کریں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم